مشکل راستے قسط نمبر 57

ایک زمانے کے بعد اس شان دار محل نما کوٹھی میں قدم رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ جہاں انہوں نے محض چند سال ہی ہنسی خوشی کے گزارے تھے ۔۔۔۔۔ مگر وہ پل وہ لمحے ہی ان کا کل سرمایہ تھے ۔۔۔۔۔۔ آنکھوں میں نمی لئے وہ اس کے درو دیوار کو دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ فاطمہ بھی اپنی والدہ حوریہ کے ساتھ تھیں ۔۔۔۔ والد کی جدائی نے انہیں بے حال کیا ہوا تھا ۔۔۔۔ مگر اللہ نے انہیں ان کی والدہ کی ہی طرح صبر اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہنے کی صف سے نوازا ہوا تھا ۔۔۔ جمال کے انتقال کو ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا ۔۔۔۔ مگر وہ خوش قسمت تھے کہ مرتے وقت ان کے قریب ان کی محبت ان کی بیوی ان کے پاس تھیں ۔۔۔۔ سارے گلے شکوے مٹا کر وہ ان کے پاس چلی آئی تھیں ۔۔۔ انہی کی بانہوں میں انہوں نے دم توڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ کتنا مختصر ساتھ تھا ان دونوں کا ۔۔۔۔ اور پھر ایک لمبے عرصے بعد ملے بھی تو چند پلوں کے لئے ہی تھے اور پھر ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے ۔۔۔۔۔وہ جمال کے کمرے میں داخل ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔ جسے کبھی خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا ۔۔۔۔۔ آج سب کچھ بدل گیا تھا ۔۔۔۔ اگر کمرے میں کچھ نہیں بدلا تھا تو دائیں طرف دیوار پر لگا تغرا تھا جو اب بھی ویسے کا ویسا ہی دیوار پر لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ یہ تغرا انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا اور بنایا تھا ۔۔۔

میں اکثر ابو جی کو اس کے سامنے کھڑے دیکھتی تھی ۔۔۔۔ وہ محویت سے اس کو گھنٹوں دیکھتے رہتے تھے ۔۔۔۔ انہوں نے مجھے کبھی پہلے نہیں بتایا تھا کہ یہ آپ نے بنایا ہے ۔۔۔۔۔ اپنی موت سے ایک دن (فاطمہ کہتے کہتے رک کر رندھے لہجے میں پھر گویا ہوئیں ) پہلے مجھے رات میں کمرے میں بلا کر بتایا تھا کہ اسے آپ نے بنایا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد ہی ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔

ہاں مجھے یاد ہے جب میں نے اسے دیوار پر لگایا تھا تب جمال سے وعدہ لیا تھا کہ اسے کبھی بھی یہاں سے ہٹائینگے نہیں ۔۔۔۔۔ اور دیکھو انہوں نے اس وعدے کا پاس بھی رکھا ۔۔۔۔۔ مجھے مایوس نہیں کیا ۔۔۔۔۔

وہ ایک اُداس سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے بولیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ دونوں ہی کمرے سے باہر نکل آئیں ۔۔۔۔۔ بڑی سی گول راہداری سے گزتے ہوئے وہ دونوں مین ڈور کے دروازے تک پہنچی تھیں اور دروازہ کھول کر باہر محل نما کوٹھی سے نکل آئیں ۔۔۔۔۔ سامنے ہی عباس کھڑا تھا ۔۔۔۔

اسلامُ علیکم ۔۔۔۔۔۔

وعلیکم اسلام کیسے ہو عباس ۔۔۔۔۔

وہ خوشدلی سے اس سے بولی تھیں ۔۔۔۔۔

میں ٹھیک ہوں اللہ کا فضل ہے ۔۔۔۔ مگر کیا آپ پھر سے جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔

اب صاحب بھی نہیں رہے میم صاحب ۔۔۔ اب آپ بھی چلے جائینگیں اور فاطمی بٹیا بھی ۔۔۔۔گھر خالی ہوجائیگا۔۔۔۔

جب وہ ہی نہیں رہے تو میرا یہاں رکنا بیکار ہے عباس ۔۔۔۔۔۔ اور فاطمہ کو اب میں میں خود سے جدا نہیں کر سکتی
۔۔۔۔

ان کی بات سن کر عباس رونے لگا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی تمام عمر ہی جمال کے ساتھ گزر گئی تھی ۔۔۔۔ فاطمہ اسے اپنے بچوں کی طرح عزیز تھی ۔۔۔۔ اب وہ بھی یہاں سے جارہی تھی ۔۔۔۔

پھر آپ مجھے بھی اجازت دیں بی بی صاحبہ ۔۔۔۔ جب آپ لوگ یہاں نہیں رہینگے اور سب سے بڑھ کر میرے صاحب اب نہیں رہے تو میں اس حویلی میں رہ کر اکیلا کیا کرونگا ۔۔۔۔

وہ اداس مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگیں تھیں ۔۔۔۔۔۔

لیکن میں چاہتی ہوں کہ تم یہیں رہو ۔۔۔۔۔ جب تک فاطمہ فیصلہ نہیں کر لیتیں کہ انہیں جمال کی پراپرٹی کا کیا کرنا ہے ۔۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔۔

ان کی بات پر مودبانہ انداز میں سر جھکا کر بولا تھا ۔۔۔۔ ایک نظر پھر اس خالی آشیانے پر ڈالی تھی انہوں نے ۔۔۔۔ اور فاطمہ کا ہاتھ پکڑے باہر نکل گئیں ۔۔۔۔۔۔


××××××××××××××××
بی بی جی ۔۔۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔۔۔۔

شاہدہ ادھ کھلے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر وہیں دروازے کے باہر کھڑے ہوکر بولی تھی ۔۔۔۔

وہ جی نانی جان آپ کو نیچے بلا رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔

اچھا آپ چلو میں آتی ہوں ۔۔۔۔۔۔
میں جو آئینے کے سامنے کھڑی خالی الذہن خود کو بلا ارادہ دیکھے جارہی تھی وہیں سے اسے جواب دیا تھا ۔۔۔۔۔

اچھا جی ۔۔۔۔ جلدی آجائیں ۔۔۔ دوپہر کا کھانے پر سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں جی ۔۔۔۔

شاہدہ واپس پلٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔

عائیشہ خود کو اس نئے نام کے لئے تیار کرلو ۔۔۔۔ اب تم آج سے عائیشہ نہیں نائلہ ہو ۔۔۔۔۔ نائلہ اسفند ۔۔۔۔۔

آئینے میں دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں خود کو باور کرایا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔۔۔۔ سیڑھیوں کے اختتام پر بڑے سے ہال کی دوسری طرف اس بڑی سی ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے افراد پر نظر پڑی تو ٹھٹک کر وہیں رک گئی تھی ۔۔۔۔ مجھے خالہ بی اور چندہ پھو پھو کے ساتھ بیٹھے اس انسپکٹر عرف ذکی کو دیکھ کر ایک عجیب سی گھبراہٹ نے پھر اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔

ارے آؤ نا نائلہ بیٹا ۔۔۔ وہاں کیوں کھڑی ہو ۔۔۔۔۔ دیکھو میں نے تو ابھی تک کھانا بھی نہیں شروع کیا ۔۔۔۔۔

چندہ پھو پھو کی مجھ پر نظر پڑی تو خوش دلی سے بولیں تھیں ۔۔۔۔۔۔

ہاں نائلہ ادھر آؤ میرے پاس ۔۔۔۔ بیٹا ادھر آکر بیٹھو ۔۔۔۔

خالہ بی نے بھی میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔ میں ججھکتے ہوئے ان کے قریب آگئی تھی ۔۔۔۔۔ اور چندہ پھو پھو کے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔ میز پر انڈے پراٹھے ۔۔۔ مسور کی دال بھنا قیمہ اور نا جانے کیا کیا الم بلم رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن ذکی صاحب کو دیکھ کر ویسے ہی میری بھوک مٹ چکی تھی ۔۔۔۔ اوپر سے اس کی نظریں خود پر محسوس کر کے میری خود اعتمادی ہوا ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ میں کوئی کنفیوزڈ شخصیت تھی ۔۔۔ مگر پتا نہیں کیوں اس انسپکٹر کے سامنے اپنا اعتماد مجھے زمین بوز ہوتا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔۔ شاید اس لئے کہ اس سے پہلے میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا ۔۔۔۔اور اب اپنی شخصیت چھپانے کے لئے بہت بڑے جھوٹ بولنے پڑ رہے تھے ۔۔۔۔ کہتے ہیں نا کہ ایک جھوٹ بول کر پھر اسی کو سچ ثابت کرنے کے لئے مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔۔۔۔ سو میں بھی یہی کر رہی تھی ۔۔۔۔ ایک سچ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بول رہی تھی ۔۔۔۔۔

ارے یہ خالی ٹوسٹ کیوں لیا ہے تم نے ۔۔۔ قیمہ اور آملیٹ بھی لو ناں ۔۔۔۔۔

چندہ پھو پھو نے مجھے ایک ٹوسٹڈ بریڈ اٹھاتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔۔

جی شکریہ میں خالی جیم لونگی ساتھ میًں ۔۔۔۔

اچھا جو تمہارا دل چاہے وہ لو ۔۔۔۔ لیکن بیٹا یہ تکلف ہمارے گھر نہیں چلتا ۔۔۔۔

خالہ بی بولی تھیں ۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔

میں نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے میز کی دوسری طرف بیٹھے ذکی کو کن اکھیوں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔ موصوف سر جھکائے کھانے میں مصروف تھے ۔۔۔۔ مگر میرے دیکھنے پر جھکا سر ایک دم اُٹھا کر مجھے دیکھا تھا ۔۔۔۔ جس پر میں نے ایک دم سر جھکا لیا تھا ۔۔۔۔۔

اچھا نانی جان مجھے دیر ہورہی ہے میں چلتا ہوں ۔۔۔۔۔

انسپکٹر ذکی یہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھا تھا ۔۔۔۔ اور پولیس کیپ پہنتے ہوئے ایک اُچٹتی نظر مجھ پر ڈالی تھی ۔۔۔ اور پھر باہر کی طرف قدم بڑھا دئے ۔۔۔۔۔ اس کے جانے پر میں نے سکون کا سانس لیا تھا ۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں اس کی آنکھیں مجھے میری ذات کو کھوجتی محسوس ہوتی تھیں ۔۔۔

خالہ بی یہ ذکی کیا صرف ایس ایچ او کی پوسٹ تک ہی رہے گا یا آگے بھی کچھ اس کی ترقی کے چانسز ہیں ۔۔۔۔

تم جانتی ہو راحت جہاں ۔۔۔۔۔ وہ ایک خوددار اور ایماندار پولیس آفیسر ہے ۔۔۔ اور ایسے آفیسرز افسر شاہی کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں ۔۔۔۔

جی ہاں ۔۔۔۔ جانتی ہوں مگر آپ کی بھی تو اوپر تک اپروچ ہے ۔۔۔۔۔ آپ بھی تو اس کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہیں ۔۔۔۔

تم ذکی کو جانتی ہو ۔۔۔۔ پھر بھی ایسا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔ اسے سفارش سے سخت نفرت ہے ۔۔۔۔

جی ۔۔۔ لیکن جب جھوٹ سے سفارش سے ۔۔ گھپلوں سے بے ایمانی سے کرپشن سے اسے نفرت ہے تب ایسے شعبے کو ہی کیوں چنا اس نے ۔۔۔۔ اور ویسے بھی اس کو جوب کی ضرورت ہی کیا تھا بھلا ۔۔۔۔ اچھی بھلی زمینیں ہیں جائیداد ہے ۔۔۔۔ وہی سنبھالتا نا ۔۔۔۔

ہاں مگر وہ اس جائیداد کو اپنی ملکیت سمجھے تب ۔۔۔۔ اور تم اچھی طرح سے جانتی ہو ۔۔۔۔ وہ اپنے نانا سے اور اپنی ماں سے سخت خفا ہے ۔۔۔۔۔ صرف وہ میری وجہ سے ہی یہاں ہے ہمارے ساتھ ۔۔۔۔ اپنے باپ کا وعدے کا پاس کر رہا ہے اور بس ۔۔۔

وہ درد بھرے لہجے میں چندہ پھو پھو سے بولیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور میں چپ چاپ ان دونوں کی بات سن رہی تھی ۔۔۔ مگر اس مہربان خاتون کو دکھی اور رنجیدہ دیکھ کر مجھے دلی تکلیف ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ کچھ عجیب سا کرب ان کی بوڑھی آنکھوں میں لہراتے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

×××××××××××××××××××××٨

نیم تاریک کھنڈر نما پچیس منزلہ عمارت کی بوسیدہ سی چھت کے عین درمیاں الاؤ جل رہا تھا ۔۔۔۔ اور اس الاؤ کے گرد ساتھ یا آٹھ افراد کالے جبے پہنے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔ جن کے چہروں پر ایک عجیب سی خباثت اور وحشت ٹپک رہی تھی ۔۔۔ وہ سب خاموش اور ساکت کھڑے الاؤ کو دھکتا جلتا دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ پلک جھپکے بغیر ۔۔۔ ایک دم ہی ایک ساتھ سب کی نظریں اوپر آسمان کی طرف اُٹھی تھیں ۔۔۔۔ ایک کالا ہیولا ان کے عین سروں پر ساکت ہوا میں معلق کھڑا تھا ۔۔۔۔ پھر وہ ہرکت میں آیا تھا ۔۔۔ اور الاؤ کے قریب اتر کر ۔۔۔۔ ایک گنجے اور ہیبت ناک شخص کا روپ دھار لیا تھا ۔۔۔۔
اس کو دیکھ کر وہ آنٹھوں افراد اس کے سامنے سجدے میں گر گئے تھے ۔۔۔

ابھیمنیو کی جے ہو ۔۔۔۔ شیطان امر ہے (نعوذباللہ)

خوفناک کھر کھراتی ہوئی آواز میں سب ایک ساتھ بولنے لگے تھے ۔۔۔۔۔ پھر ان میں سے ایک آگے بڑھا تھا ۔۔۔ اور اس ہیبت ناک شخص کے سامنے کپکپاتے ہوئے کھڑا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔ ابھیمنیو اسے اپنی خوفناک سرخ سرخ آنکھوں سے گھورنے لگا تھا ۔۔۔۔

بول کیا بولنا چاہتا ہے توُ ۔۔۔۔۔

شش شانتالا کو اس کنیا نے مار دیا ہے ۔۔۔۔

شانتلا ۔۔۔۔ کون ہے وہ مورکھ ۔۔۔ جس نے مجھ سے ٹکر لینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔

شانتو (عمر) کی بیٹی کی نواسی عائیشہ سرکار ۔۔۔۔۔

ابھمنیو دھاڑا تھا تو اسی شخص نے ڈرے ڈرے لہجے میں اسے بتا یا تھا ۔۔۔۔۔عائیشہ کا نام سن کر ابھیمنیو چونکا تھا ۔۔۔۔ پھر ایک دم اچھل کر اس مخبر کی گردن اپنے آہنی ہاتھوں میں دبوچ لی تھی ۔۔۔۔ اور پھر دوسرے ہاتھ سے گردن پکڑ کر تن سے جدا کردی ۔۔۔۔۔ اپنے ساتھی کا بھیانک انجام دیکھ کر باقی ساتوں سجدے میں گر پڑے تھے اس کے سامنے ۔۔۔

عائیشہ ! توُ اب میرے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتی ۔۔۔۔ تجھے اور تیرے پورے خاندان کو نرگ نہ پہنچایا تو میرا نام بھی ابھیمنیو نہیں ہے ۔۔۔۔ سوگند کھاتا ہوں میں اپنے بھگوان اپنے آقا شیطان کی ۔۔۔۔ تجھے میں نہیں چھوڑونگا ۔۔۔۔

وہ دھاڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور دانت پیستے ہوئے شیطان کی سوگند (قسم) کھائی تھی ۔۔۔

××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230237 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More