اگر کوئی بھی قانون حضور پاکﷺ کی ذاتِ اقدس
یا ان کی تعلیمات، ان کی احادیث کی نفی کرے گا اس کی کوئی قانونی حیثیت
کبھی بھی تسلیم نہیں کی جائے گی، یہ سوچ کر ہی دل دُکھ سے بھر جاتا ہے کہ
کیا ہم واقعی مسلمان ہیں۔۔؟۔۔ کیا پاکستان واقعی ایک اسلامی ریاست ہے۔۔۔؟۔۔۔
کیا ہمارے حکمران ذہنی طور پر نابالغ ہیں۔۔؟۔۔۔ کیا ہمارے حکمران، ہماری
عدالتیں، ہمارے ملک کے تمام سیاستدان اسلامی تعلمیات سے نابلد ہیں۔۔؟۔۔۔
اسبابِ عیش و عشرت استعمال کرنے والے یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے اسباب و وسائل کی وسعت پر قادر ہوتے ہوئے دنیوی عیش سے ہمیشہ
انحراف کیا، حضور پاکﷺ کی زندگی کے وہ روشن باب جنہیں اپنا کر ہم بہت سی
دنیاوی مشکلات سے بچ سکتے ہیں، حضور پاکﷺ کی زہدانہ زندگی کے وہ واقعات جو
ہم سب کی زندگی کے لیئے این اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتے ہیں، افسوس کہ ہم نے
انہیں محض قصہ کہانی سمجھ لیا ہے۔۔۔
بلا شُبہ دین و ایمان کی بنیاد پر استوار ہونے والا معاشرہ ہی ہماری پہچان
ہونا چاہیئے، اﷲ کے نبیﷺ کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات ہی ہماری زندگی کا
اسلوب بہتر بنانے میں بہترین مشعلِ راہ بن سکتے ہیں،
آپﷺ کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، رہنا، سہنا، لباس میں سادگی، یہ وہ
امور ہیں جو ہمیں سادگی کا پیام دیتے ہیں، کہ جب انسان عیش و عشرت کا
دلدادہ ہو جائے تو اس کی خواہشات لا متناہی ہو جاتی ہیں، اور بے لگام
خواہشیں کبھی انسان کو چین و سکون کی نیند سونے نہیں دیتیں،
مکمل اسلامی معاشرے کا قیام کسی بھی مسلمان کے لیئے بے انتہا تسکین ِ قلب و
جان ہو گا ، اور اس کے لیئے صرف ایک سوچ کی ضرورت ہو گی کہ تبلیغ ِاسلام کو
کوُبہ کُو ، قریہ قریہ پھیلایا جائے ، اور یہ ایک فردِ واحد سے ہوتا ہوا
جوق در جوق دوسروں تک پہنچ جائے ، اور تبلیغ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صرف
ایک غیر مسلم کو ا ہی پنے مذہب کی طرف راغب کیا جائے بلکہ تبلیغ کا صحیح
مقصد یہ ہے کہ دوسروں تک صحیح تعلیمات پہنچائی جائیں ، پھر خواہ وہ مسلم ہو
یا غیر مسلم ۔۔۔
ہمارے دین میں سختی کی کوئی گنجائش نہیں ، اس کے بر عکس نہایت پیار ، محبت
، سلیقے اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنی بات دوسروں تک پہنچائیں ، اس انداز
میں دالائل کے ساتھ کہ بات اگلے بندے کے دل میں اتر جائے ، محبوبِ خدا ﷺ کی
تعلیمات ، اور قرٓن پاک کی روشنی میں ہم جو بھی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے
گا یقیناً اﷲ کے نزدیک مستحسن عمل ہو گا ، حضور پاکﷺ کی ساری زندگی ہی
سادگی سے عبارت ہے ،
اگر حضرت محمدﷺ کی زندگی کے چند پہلوؤں کو ہی اپنی نجی اور خانگی زندگی کا
حصہ بنا لیا جائے تو بے شک ہماری اپنی زندگی میں صالحیت آئے گی اور معاشرے
پر بھی اصلاحی اثرات مرتب ہوں گے ،
لیکن یہ بھی نہ سمجھا جائے گہ سیرتِ پاکﷺ پر چند مجالس ، صرف ربیع الاول کے
مہینے میں تقاریر ، نعتیں ، مضامین ،سے ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی آسکتی
ہے تو یہ بلکل غلط نظریہ ہے ، ہمیں ایک مسلم معاشرے کی تخلیق و تکمیل کے
لیئے روزمرہ کے معمولات ، میں ، اپنے نصاب میں ، اپنے ملک کے ایوانوں میں ،
گھر گھر ، گلی کوچے میں ، اسکول ، کالج، یونورسٹیز میں ہر جگہ معمولاتِ نبیﷺ
، سیرتِ نبویﷺ کو پھیلانا ہو گا ، اور اس اکا آغاز یقیناً اہپنی ذات سے
کرنا ہو گا ، کہ ایک ایک فردِ واحد کی سوچ میں بدلاؤ ضروری ہے ، یہ یاد
رکھنا ضروری ہے کہ اسلام صرف مسجد تک محدود نہیں ہوتا ، اسلام تو ہمارے
اسلامی معاشرے کے ہر گلی کوچے میں نظر آنا چاہیئے ، ہمارے قلب و زبان کو
صبر اور شکر کا لبادہ اوڑھنا ہو گا ، معمولاتِ نبیﷺ کو اپنا نا ہو گا ،
ایسی ہیئیت اپنانا ہو گی جس سے بنا بتائے ہماری شناخت ایک مسلمان کی حیثیت
سے سب کو نظر آئے نہ کہ اول جلول ملبوسات کسی کو پوچھنے پر مجبور کر دیں کہ
آیا آپ مسلمان ہیں ۔۔؟۔۔۔
ہم ایک اﷲ ، ایک نبی ، ایک قرآن کے ماننے والے ،بے شک اپنے نبیﷺ کے نقشِ
قدم پر چلنے کو اپنا فخر مانتے ہیں ، اﷲ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے ۔۔۔
آمین ، ثم آمین ۔۔۔ |