نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘
مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ تو ہمارے نبی ہیں مگر اُن
کی اس بات پر حقیقی معنوں میں عمل غیر مسلم کر رہے ہیں۔ میں کئی بار سوچتا
ہوں کہ ہماری مساجد کے واش روم کس قدر گندے ہوتے ہیں حالانکہ ہم لوگ اپنی
گندگی صاف کرنے کے لئے پانی کا بھی استعمال کرتے ہیں جبکہ غیر مسلم اپنی
گندگی کو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہیں مگر اس کے باوجود اُن کے واش روم کس قدر
صاف ہوتے ہیں۔
میرا شہر چکوال اتنا بڑا نہیں ہے، موٹر سائیکل ہو تو چند منٹ میں پورے شہر
کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ میرے 16 سالہ صحافتی کیرئیر کی عادت
رہی ہے کہ میں تحقیق کر کے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ چکوال بائی پاس پر اگر
گذر ہو تو تھنیل پھاٹک کے پاس جہاں بہت سارے پرائیویٹ ہسپتال بنے ہوئے ہیں
وہاں پر گندگی کے بڑے بڑے ڈھیر عجب داستان سنا رہے ہوں گے۔ ایک طرف ہسپتال
اور دُوسری طرف گندگی کے ڈھیر۔ بائی پاس سے ون فائیو شہر کی طرف آئیں تو آپ
کو ساری ریلوے اراضی کچرے کے ڈھیر سے بھری ہوئی نظر آئے گی۔
قارئین محترم! آپ کالم کے ساتھ تصاویر کو بغور دیکھ سکتے ہیں۔ شہر کے اندر
اس قدر کچرا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بڑے شہروں میں تو چونکہ جگہ کم ہوتی ہے اس
وجہ سے وہاں کچرہ شہر کے اندر ہی کسی جگہ ضائع کرتے ہیں مگر چکوال کے ساتھ
بے پناہ کھلی جگہیں موجود ہیں اس کچرے کو شہر کے اندر پھینک دینا کہاں کی
عقلمندی ہے۔ کچرے کی بدبو سے سارا ماحول خراب ہوتا ہے اور اس کا بُرا اثر
شہریوں کی صحت پر پڑتا ہے۔
میری حیرت کی انتہا اُس وقت ہو گئی جب چکوال کی معروف کاروباری شخصیت اور
چکوال چیمبر آف کامرس کے بانی قاضی محمد اکبر کی رہائش گاہ کے سامنے کچرے
کے ڈھیر پڑے ہوئے دیکھے۔ آپ تصویر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ٹی ایم اے
کی کچرہ ٹرالی بھی موجود ہے مگر سارا کچرہ باہر پڑا ہے۔ اُن کی رہائش گاہ
کے ساتھ ہی گورنمنٹ ہائی سکول سرگوجرہ ہے وہاں بھی کچرے کے ڈھیر دیکھے جا
سکتے ہیں۔
بھون روڈ پر جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ پنڈی روڈ پر بھی یہی حالت
ہے یہاں تک کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کی دیوار کے ساتھ بھی کچرے
کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ تلہ گنگ روڈ پر تھانہ صدر کے سامنے بلدیہ کی کھلی جگہ
پر کچرے کے ڈھیر صبح شام شہریوں کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔
قارئین محترم! میری اربابِ اختیار سے گذارش ہے کہ آخر اتنے چھوٹے سے شہر
میں کیا صفائی کا بہتر انتظام نہیں ہو سکتا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ
سابق ضلعی ناظم سردار غلام عباس کے دور میں نکاسی آب کے لئے کروڑوں روپے کے
فنڈز لگا کر ایک بڑا نالہ بنایا گیا تھا مگر وہ بھی کچرے سے بھر گیا ہے۔ اب
اگر اُس کی صفائی کرا دی جائے اور اُس کچرے کو کسی محفوظ جگہ پر پھینک دیا
جائے تو چکوال کے شہریوں پر احسانِ عظیم ہو گا۔ یقینا اس حوالے سے میونسپل
کمیٹی کے چیئرمین چوہدری سجاد احمد خان کو بروقت اور احسن اقدامات کرنا ہوں
گے۔ جب چکوال کے شہریوں کو جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آئیں گے اور گندگی اور
غلاظت نظر آئے گی پھر اس کو کون پسند کرے گا۔ یقینا اس حوالے سے اربابِ
اختیار کو نوٹس لینا ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭ |