میں سلمان ہوں(١٢١)

تیراچہرہ تیری آنکھیں
اداس سی مگر خواب دکھاتی
جھیل سی مگر کنول جیسی
چہرہ ایسا کہ ادا ہو محتاج جس کی
سراپا قیامت اس پر سادگی کا ستم
کوئی بتلائے کہاں جائیں ہم

سلمان نے شکر ادا کیا،،،روزی کا روم جو کہ فیکٹری کے ایڈمن بلاک میں تھا،،،
بند تھا،،،
یار بس دعا کرو،،،سب اچھا ہو،،،فضلو کی بات سن کر سلمان نے حیرت سے
اسے دیکھا،،،کیا مطلب؟؟،،،!

فضلو نے فکر مند لہجے میں کہا،،،بات تو خوشی کی ہے،،،مگر نامکمل خوشی،،
سلمان کی حیرت تجسس میں بدل گئی،،،بابا کیا ہوا؟؟،،،!
ارے بیٹا!! رات ہی روزی میڈم اور ان کی والدہ کینیڈا چلی گئیں،،،روزی میڈم
خالہ بن گئی ہیں،،،مگر سنا ہے ان کی بیٹی کی طبیعت ذرا ٹھیک نہیں،،،اسی
لیےوہ فوراَ چلی گئیں،،،

اللہ بہت رحم کرنے والا ہے فضلوبابا،،،سب ٹھیک ہو جائے گا،،،یہ لوگ خوش
خوش واپس آئیں گے،،،
اس باراس کی قلقاریاں سن کر،،،دل کو ملےگا تحفہ حسین،،،جیسے اتری ہو
بہارکسی کا سنگھار کئے،،،

بابا نے مسکرا کر سلمان کو دیکھا،،،کس قدر خوش گمان رہتے ہو،،،کچھ
ہے بیٹا تجھ میں،،،غم تو غم دوسروں کی خوشیاں بھی محسوس کرتے ہو۔
اک بات بتاؤ،،،کبھی جلن بھی ہوئی؟؟،،،،
سلمان مسکرا دیا،،،بابا بس اک بات میں جواب دے دوں،،،
بابا نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا،،،

فضلوکو سلمان میں اپنا پن نظر آتا تھا،،،،اک ایسا انسان جو سر سے پیر تک
علم و ہنر میں کمال رکھتا تھا،،،
مضبوط جسم،،،کشادہ پیشانی،،،صحت مند چمکتی جلد،،،اس کی کلرڈ
آنکھیں بولتی تھیں،،،
فضلو بولا میں منتظرہوں،،،جواب دو اک منٹ میں،،،کب جلن ہوئی،،،

سلمان مسکراکر بولا،،،فضلوبابا میں انسان ہوں،،،
فضلوبابانے قہقہہ لگایا،،،یار لاجواب،،،پھر بھی کوئی اک مثال دے دو،،،میں
ذیادہ پڑھالکھا نہیں ہوں،،،سمجھنے میں آسانی ہوگی،،،

سلمان مسکرایا،،،بابا کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا
فضلوکبھی تیز گرمی،،،جب انسان سائے کو ترستا ہو،،،زبان حلق پانی کو،،،
بس انسان کائنات کی حرارت سے بہت تنگ ہو،،،
ایسے میں آپ اے سی کار میں ہوں،،،باہر بس تندور ہے،،،کار آہستہ ہوجائے،
باہر تیز لو والی دھوپ میں کمزور سا انسان،،،بے چین سا،،،کالا سیاہ،،،
سڑک کھود رہا ہو،،،آپ کی کارآہستہ آہستہ اس کے قریب جائے،،،وہ نیم وا
آنکھوں سے کار میں چلتے ہوئے اے سی کی کولنگ حسرت سے محسوس
کرے،،،
اتنے میں کائنات کی سب سےحسین اور پرکشش پکار کی آواز آئے،،،وہ
جھٹ سے بولے،،،حاضر سائیں،،،حاضر میرے مالک،،،
میں آیا،،،میں آیا،،،میں صدقے،،،
اور تیزی سےاپنے پسینے زدہ کپڑوں سے ہاتھ منہ پوچھے،،،اور مسجد کو دوڑ
پڑے،،،

آپ اے سی زدہ کار میں اس پکار سے،،،اس مزدورسے دور ہوتے چلے جائیں،
سلمان جل جل کر راکھ ہونے لگتا ہے،،،
فضلو کی آنکھ رونے کو تیار ہونے لگی،،،سلمان اٹھ کر پلانٹ کی جانب
چل دیا،،،

فضلو نے سلمان کی پیٹھ کو دیکھا،،،جاتا ہوا سلمان،،،اک عجیب انسان
تھا اس کے لیے،،،،اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں،،،،
واہ یار واہ،،،رلا کے چلا گیا،،،بات بہت سادہ سی تھی،،،مگرسلمان کی
مثال نے اسے دنیا میں سب سے الگ کردیا،،،،(جاری)
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1253955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.