ندا کی آنکھیں پھیلتی گئیں،،،سلمان نے اپنی اور روزی کی
گفتگو کو اختصار
کے ساتھ سنا دیا،،،
ندا کی آنکھیں سکڑ کر واپس اپنی جگہ آ گئیں،،،اب اس کے چہرے پر حیرت
کی جگہ حسد نے لے لی،،،
عورت کا وجود محبت میں تقسیم کا قائل نہیں ہے،،،وہ سب کچھ برداشت کر
سکتی ہے،،،مرد کی بری نگاہ،،،ظلم و ستم،،،غربت،،درد،،،
مگر وہ اپنے پیار کو کبھی بھی نہیں بانٹ پاتی،،،،اس جگہ آکر اس کی برداشت
کی حد ختم ہو جاتی ہے،،،
عورت اگر اپنے شوہر کو ‘‘آجی سنیے‘‘،،،کہہ کر پکارتی ہے،،،اس سے یہ بھی
برداشت نہیں ہوتا،،،کہ کوئی دوسری عورت اپنے شوہر کو ایسے پکارا کرے،،،
روزی اپنی دولت کے بل بوتے پر سلمان کو مرغوب کرنا چاہتی ہے،،،ندا کی
سوچ اس کی خوبصورتی اور دولت سے آگے نہیں جا پاتی تھی،،،
وہ (روزی) اس کےلیے دنیا کی سب سے ظالم لڑکی تھی،،،جس سے امجد کے
ذریعے پہلے اپنا رستہ صاف کیا،،،اور اب سلمان کو اکیلا مالِ غنیمت سمجھ
کر ہڑپ کر جانا چاہتی تھی،،،
اس کی سانسیں تیز ہو کر اس کے بی پی کو ہائی کر رہی تھیں،،،
سلمان نے آنکھیں موند لیں،،،وہ ندا کے دکھ سے باخبر تھا،،،مگر وہ اس
محبت کی چار دیواری سے دور رہنا چاہتا تھا،،،
کس قدر بد نصیب ہوں
پیار سے بھی دور ہوں
مسز مجید اور فراز بے انتہا پریشانی کے عالم میں یہاں سے وہاں ٹہل رہے
تھے،،،کمرے کے دروازے،،کھڑکیاں سب بند تھے،،،
فراز اگربنک کا لون ادا نہ ہوا،،،تو ناصرف ہم فٹ پاتھ پر آجائیں گےبلکہ
تمہارے پاپا جیل کی ہوا بھی کھائیں گے،،،
فراز نے پریشان ہو کر ماں کو دیکھا،،،مام آہستہ،،،کوئی سن لے گا،،،سارا
کھیل برباد ہو جائے گا،،،مجھے پتا ہے پاپا گھر نہیں تھے،،،نوٹس میں
گیٹ پر لگا کر وِد اِن ففٹین دیز ریورٹ کہا ہے،،،
مام،،،یہ سلمان،،،مسز مجید نے دانت پیس کر نفرت سے بیٹے کو دیکھا،،،
اک معمولی سا ڈرائیورتم سے آگے نکل گیا،،،اٹس رئیلی اَن بیئرایبل،،،
فراز ہر حال میں ان کی پراپرٹی ہی ہمیں ذلت و رسوائی سے بچا سکتی
ہے،،،ملینز پراپرٹی،،،جسٹ ٹو سسٹرز،،،تھنک آباؤٹ اٹ،،،
سنا ہے وہ کمینہ فیکٹری پہنچ گیا ہے،،،اس کے پیچھے پیچھے وہ
محترمہ روزی بھی،،،کسی بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرتی پہنچ گئی
ہے،،،ہاؤ نان سینس،،،
فراز کی بات پر اس کی ماں سانپ کی طرح پھنکار کر بولی،،،یہ سب تو
ہم دونوں کو پتا ہے،،،اس کاحل سوچو،،،
فراز گہری سوچ میں ڈوب گیا،،،اس کے چہرے پر جوانی کی سرخی کی
بجائے،،،کمینے پن کی مکاری چڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
|