نبی اکرم ﷺ جب دنیاسے الوداع فرمارہے تھے آپ ﷺ کی جدائی
کے آخری لمحات اگر آج امت کے سامنے پیش کیے جائیں توآنکھوں سے آنسوؤں کی
لڑی بن جاتی ہے ،دل پھٹنے کوآتاہے اورزبان حال سے کہناپڑتاہے اتنی صدیوں کے
گزرنے کے بعد بندہ برداشت نہیں کر سکتاان لوگوں پہ کیاگزری ہوگی جن کے
سامنے نبی کریم ﷺ کاوصال ہوا۔وہ خوش نصیب صحابہ کرام ؓ تھے جنہوں نے آپ ﷺ
کی ہراداکومحفوظ کیااورامت تک پہنچایادین اسلام مکمل ہوچکا،مقصد رسالت حاصل
ہوچکا،حجۃ الوداع کاموقع آگیاتوآپ ﷺ نے مسلمانوں کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا
اے لوگو!میری بات سنو،شاید اس سال کے بعد اس جگہ میں تم سے کبھی نہ ملوں ۔لوگو
سن لو،تمہارے اموال،تمہاری جانیں ،اورتمہاراننگ وناموس ایک دوسرے پرحرام ہے
۔
اے لوگو!آخرتمہیں اپنے رب کے پیش ہوناہے وہاں تمہارے اعمال کے متعلق پرسش
ہوگی ۔خبردار،میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا۔اے لوگو!اپنی بیویوں سے متعلق اﷲ سے
ڈرتے رہو۔جس کے پاس کسی کی امانت ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کے حوالہ کر دے
ہرقسم کاسود ساقط کردیاگیاہے دورجاہلیت میں جوبھی خون تھاوہ ختم کردیاگیاہے
(یعنی اب ان کاانتقام نہ لیاجائے )لوگومیری بات غور سے سنو!کہ ہرمسلمان
دوسرے مسلمان کابھائی ہے تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں میں نے تمہارے درمیان
وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رکھوگے توکبھی گمراہ نہیں ہوؤگے
اوروہ کھلی ہوئی چیز ہے قرآن و سنت رسول اﷲ۔اے لوگو!تم سب کاخدابھی ایک ہے
،لہذاکسی عربی کوعجمی پر کسی سرخ کوسیاہ پر،کسی سیاہ کوسرخ پرکوئی فوقیت
نہیں ہاں افضل وہی ہوگاجوپرہیزگاری میں افضل ہو۔
اے لوگو!میرے بعد کوئی نبی نہیں اورنہ میرے بعد کوئی نئی امت ہے پس تم سب
اﷲ کی عبادت کرتے رہو،نمازپنجگانہ کی پابندی کرو،رمضان کے روزے رکھو،خوش
دلی سے اپنے مال کی زکوٰ ۃ نکالواوراﷲ کے گھرکاحج کرو۔
آخرمیں فرمایا:ایک دن اﷲ تعالیٰ تم لوگوں سے میرے متعلق گواہی طلب کرے گاتم
اس وقت کیاجواب دوگے؟
تمام مجمع یک زبان ہوکربولا!اے اﷲ کے رسول ﷺ آپ نے تمام احکام پہنچادیے ۔اے
اﷲ کے رسول ﷺ آپ نے فرضِ رسالت اداکردیا،اے اﷲ کے رسول ﷺ آپ نے کھرے
کوکھوٹے سے جداکردیا۔یہ سن کرسرکاردوعالم ﷺ نے انگشت شہادت آسمان کی طرف
اٹھائی اورپھر مجمع کی طرف اٹھائی اور فرمانے لگے ۔
اے اﷲ اپنی مخلوق کی گواہی سن لے ۔اے اﷲ اپنی مخلوق کااعتراف سن لے ۔اے اﷲ
گواہ رہنا،پھر آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔
28صفر11ھ کوابن اسحق کی روایت کے مطابق آدھی رات کے وقت آپ ﷺ جنت البقیع
تشریف لے گئے اوراہل قبور کے لیے فاتحہ خوانی کی اورواپس آگئے ،دوسرے دن
صبح کواٹھے توسردردکی ابتداء ہوچکی تھی ۔ابومویہبتہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اﷲ ﷺ نے آدھی رات کوبلوایااورفرمایا: ابومویہبۃ !مجھے اس بات کاحکم
ملاہے کہ میں بقیع کے لوگوں کے لیے دعائے مغفرت کروں اس لیے تم میرے ساتھ
چلوچنانچہ میں آپ ﷺ کے ساتھ چلاگیا،جب آپ ان کے درمیان کھڑے ہوئے توفرمایا:
اے اہل قبور!تم پر سلامتی ہو،جس حالت میں لوگ ہیں اس کے مقابلے میں تمہیں
وہ حالت مبارک ہوجس میں تم ہو،فتنے اس طرح سامنے آگئے ہیں جس طرح رات کے
ٹکڑے کہ ہر ٹکڑاپہلے ٹکڑے کے پیچھے پیچھے چلاآرہاہے اورجودوسراٹکڑاہے وہ
پہلے ٹکڑے سے زیادہ پُرفتن ہے ۔
مرض آہستہ آہستہ بڑھتاگیاحتی کہ آمد ورفت مشکل ہوگئی اورمعمول کے مطابق
باری باری ازواجِ مطہرات کے ہاں جاناممکن نہ رہااس حالت میں ازواج مطہرات
سے حضرت عائشہ کے ہاں قیام کی اجازت طلب کی اورحسن طلب کے لیے یہ خوبصورت
اندازاختیار کیاکہ ’’کل میں کس کے گھر رہوں گا؟‘‘
ازواجِ مطہرات سے زیادہ مزاج شناس رسول اورکون تھاوہ حضورﷺ کی منشائے مبارک
سمجھ گئیں اورکہا!جہاں آپ کوپسندہووہاں قیام فرمائیں ۔چنانچہ حضرت علی رضی
اﷲ عنہ اورحضرت عباس رضی اﷲ عنہ آپ ﷺ کوسہارادے کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا کے حجرہ میں لے آئے ،جب تک ممکن رہاآپ ﷺ مسجد میں آکر نمازپڑھاتے رہے
،آخری باجماعت نمازمغرب کے بعد عشاء کاوقت ہواتوآپ ﷺ نے دریافت فرمایاکہ
کیانماز ہوچکی ہے ؟
عرض کیاگیاکہ نہیں اﷲ کے نبی ﷺ آپ کاانتظار ہے ۔یہ سن کرآپ ﷺ نے اپنے جسم
مبارک پرپانی ڈالااٹھناچاہالیکن ضعف کی وجہ سے غش آگیا،کچھ دیرکے بعد آپ ﷺ
نے دریافت فرمایاکہ کیانمازہوچکی ہے ؟پھر وہی عرض کیاگیا،آپ ﷺ نے پھر اپنے
جسم مبارک پرپانی ڈالااٹھناچاہالیکن پھر وہی کیفیت طاری ہوگئی اوراسی طرح
تین مرتبہ ہوا،بالآخرآپ ﷺ نے فرمایا:’’ابوبکرنمازپڑھائیں‘‘
ابن ہشام روایت کرتے ہیں کہ یہ سن کرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھانے
کہا!یانبی اﷲ!ابوبکرجب قرآن پڑھتے ہیں توان پررقت طاری ہوجاتی ہے ۔ان کی
آوازکمزورپڑجاتی ہے اورانہیں رونابہت آتاہے لیکن آپ ﷺ نے پھر
فرمایا:ابوبکرسے کہوکہ وہ نمازپڑھائیں ۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھاکہتی ہیں میں
نے پھر وہی معروضہ پیش کیالیکن آپ ﷺ نے پھر فرمایاکہ ابوبکر سے کہوکہ وہ
لوگوں کونمازپڑھائیں ۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھافرماتی تھیں کہ اﷲ کی قسم !میں
صرف اس لیے کہہ رہی تھی کہ یہ معاملہ ابوبکررضی اﷲ عنہ سے ہٹالیاجائے
کیونکہ مجھے پتہ تھاکہ لوگ یہ بات کبھی پسند نہ کریں گے کہ کوئی دوسراآپ ﷺ
کی قائم مقامی کرے ،لوگ اسے بدشگونی سمجھیں گے اسی لیے میری یہ خواہش تھی
کہ یہ معاملہ ا بوبکررضی اﷲ عنہ سے ٹل جائے ۔ایک روایت میں ہے کہ ابوبکرؓ
کوبلایاگیااورانہوں نے نمازپڑھائی۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک روزعلی الصبح جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے
تھے آپ ﷺ حجرہ سے نکل کردروازے میں کھڑے ہوگئے ،رسول اﷲ ﷺ کودیکھ
کرمسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اورقریب تھاکہ آپ کی وجہ سے ان کی
نمازیں قائم نہ رہ سکتیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ تم لوگ اپنی
نمازپرجمے رہو۔راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ مسلمانوں کواس حالت میں دیکھ
کرمسرورہوئے اورمسکرادیے ۔
ابن اسحق نے کہا!مجھ سے ابوبکربن عبداﷲ بن ابوملیکۃ نے بیان کیاکہ آپ ﷺ سر
پرپٹی باندھے ہوئے تھے آپ ﷺنے ابوبکرؓ کے دائیں ہاتھ بیٹھ کرنمازپڑھی
اورپھر بلند آوازسے یہ خطبہ بیان فرمایا:
لوگو!آگ بھڑکادی گئی ہے اورتاریک رات کے ٹکڑوں کے مانند فتنوں نے رُخ
کرلیاہے ۔خداکی قسم تم میرے ذمہ کوئی چیز نہیں لگاسکتے ،میں نے کوئی چیز
حلال نہیں کی بجز اس کے جوقرآن نے حلال کی اورمیں نے کوئی چیزحرام نہیں کی
بجز اس کے جوقرآن نے حرام کی ۔(ابن ہشام ص 802)
علالت کے دوران آپ ﷺ نے فرمایا:
اے گروہ مہاجرین!انصارسے خیروفلاح کی نصیحت حاصل کرتے رہنایہ میرے وہ
رازداں ہیں جن پرمیں بھروسہ کرتاہوں(ابن ہشام )پھر فرمایا:
مسلمانو!تم سے پہلے ایک قوم گزر چکی ہے جس نے اپنے انبیاء وصلحاء کی قبروں
کوسجدہ گاہ بنالیاتھاتم ایسانہ کرنا۔
ابن اسحق نے زہری کی روایت بیان کی ہے کہ مجھ سے ایوب بن بشیر نے بیان
کیاکہ رسول اﷲ ﷺ سر پر پٹی باندھے آئے اورمنبرپر بیٹھ گئے اور فرمایا:ایک
بندے کواختیار عطا فرمایاہے کہ وہ دنیاومافیھاکوقبول کرے یاآخرت کو۔مگراس
نے صرف آخرت کوقبول کر لیاہے ۔یہ سن کر ابوبکرؓ سمجھ گئے کہ اس سے مراد خود
رسول اﷲ ﷺ کی اپنی ذات ہے چنانچہ وہ رونے لگ گئے اور فرمایانہیں نہیں ہم
لوگ اپنے آپ کواپنی اولاد کو،آپ پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں ،پھر آپ
اپنے حجرہ میں واپس تشریف لے آئے اور اسی روزمرض میں شدت پیداہوگئی اورآپ ﷺ
بے چین ہوگئے آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر حضرت فاطمہ ؓ نے روروکر کہناشروع
کردیا۔۔واکرب اباہ ،یعنی ہائے میرے والد کی تکلیف۔
یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا،فاطمہ!آج کے بعد تمہاراباپ کبھی بے چین نہیں
ہوگا۔جب آخری وقت قریب آگیاتوآپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا’’لاالہ الااﷲ ان
للموت سکرات‘‘
یعنی ’’خداکے سوا کوئی معبود نہیں اورموت تکلیف کے ساتھ ہے ‘‘
پھر آپ ﷺ نے فرمایابل الرفیق الاعلیٰ (اس وقت اسی کی رفاقت منظور ہے)تین
دفعہ یہ فرمایااور پھر اس مشیت کوقبول کرلیا۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں اس دن
رسول اﷲ ﷺ مسجد سے واپس ہوکر میرے پاس تشریف لائے اورمیری گود میں لیٹ گئے
،پھر آپ ﷺ نے مسواک لیااور پھرمیں نے محسوس کیاکہ آپ بھاری ہوتے جارہے ہیں
اسی عالم میں آپ ﷺ نے فرمایا:بل الرفیق الاعلیٰ من الجنۃ (اب میں اپنے رفیق
اعلیٰ کے پاس جنت میں جاتاہوں)
یہ سن کر میں نے کہا!قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کوحق کے ساتھ بھیجاآپ ﷺ
کواختیار دیااورآپﷺ نے اس چیز کومنتخب کرلیاپھر میں نے دیکھاکہ رسول ﷺ کی
روح پرواز کرچکی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھابیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ آئے میں
نے پردہ اٹھایاآپ نے حضور ﷺ کی طرف دیکھ کرکہااناﷲ واناالیہ راجعون رسول اﷲ
ﷺ فوت ہوچکے ہیں ،پھر آپ ﷺ کے سر کی جانب آئے اور ان کی پیشانی کوبوسہ
دیاپھر کہا،ہائے نبی ﷺ ،پھر آپ ﷺ کی پیشانی کوبوسہ دیااورکہاہائے صفی،پھر
آپ کی پیشانی کوبوسہ دیااور کہاہائے خلیل (ابن کثیر)
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا شدت دردوالم سے کہہ رہی تھیں پیارے باپ نے دعوت حق
کوقبول کیااورفردوس بریں میں نزول فرمایاآہ!وہ کون ہے جوجبرئیل امین کواس
حادثہ غم کی اطلاع کردے الٰہی فاطمہ کی روح کومحمدمصطفی کی روح کے پاس
پہنچادے ،مجھے دیداررسول ﷺ کی مسرت عطا فرمادے ۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھاگلوگیرآواز سے بچشم تر کہہ رہی تھیں۔آہ! وہ نبی
جوامت عاصی کے غم میں ایک پوری رات بھی نہ سویاآہ آج اسی وجود سرمدی سے
ہماری دنیاخالی ہے ،
حضرت علی رضی اﷲ عنہ آپ ﷺ کے غسل دیتے وقت جسم مبار ک کواپنے سینے سے لگائے
کہہ رہے تھے ،میرے ماں باپ قربان آپ ﷺکی وفات سے وہ دولت گم ہوگئی جوکسی
دوسری موت سے گم نہیں ہوئی ،آج نبوت ،اخبارعیب ،اورنزول وحی کاسلسلہ منقطع
ہوگیااگر آپﷺ صبر کاحکم نہ دیتے توہم دل کھول کر روتے لیکن پھر بھی یہ دکھ
لازوال اورلاعلاج رہتا۔
شاعر رسالت حسان بن ثابت ؓ روتے ہوئے کہہ رہے تھے :میں لحد رسول پہ کھڑے
ہوکر روتاہوں اورآنکھیں روتے روتے اند دھنس گئی ہیں ،لوگ ان پر روتے ہیں
حتٰی کہ زمین وآسمان روتے ہیں ،ان سے وحی کرنے والاالگ ہوگیا،وہ ایک نور
تھاوہ سچ کومعلم تھا،ہوائیں اس پر روتی اورتعریف کرتی ہیں حرم ان کے بغیر
ویران ہوگیاہے ،آپ ﷺکی مسجد آپ ﷺکے فوت ہونے سے اداس ہے ،گھر میدان،حویلیاں
اجڑ گئی ہیں،اے آنکھ!رسول اﷲ ﷺ پر آنسو بہا،میں عمر بھر تیرے آنسوں خشک
ہوتے نہ دیکھوں ،خوب رو،اور اس ہستی کے کھوجانے پر شور کر،جس کی مثل زمانے
میں نہیں ،گزشتہ لوگوں نے محمدﷺ کی مثل کوئی آدمی نہیں کھویااورنہ قیامت تک
آپ جیساآدمی کھویاجائے گا۔(ابن کثیر ص 485)
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھاکے کان مبارکوں میں آپ ﷺ کی سرگوشی اورحضرت عائشہ
رضی اﷲ عنھاکاسوال وہ درد بھرمنظر میراقلم بیان نہیں کر سکتااحادیث میں اس
کی پوری تفصیل موجود ہے ۔سیرت کی کتب اورمؤرخین اورمحققین اس بات پرمتفق
ہیں کہ 12 ربیع الاول بروزپیر گیارہ ہجری نبی اکرم ﷺاس دنیاکوالوداع کر گئے
اس وقت اگر اردو ہوتی تونبی اکرم ﷺ کی آوازصحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم
اجمعین کے کانوں میں یوں گونجتی ۔
الوداع الوداع اے دوستو
ہم چلے ہیں بارگاہ الہ دوستو
مزید تفصیل کے لیے عظیم شخصیات کے آخری لمحات ،سیرۃ مصطفی ازحضرت
مولانامحمدادریس کاندہلوی ،دین ودانش ،مینارہ نورازراقم الحروف
کاضرورمطالعہ کریں۔
نبی اکرم ﷺحضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھاکے گھر میں آرام فرماہیں
70ہزار فرشتے صبح اور70ہزارفرشتے شام درود وسلام پڑھتے ہیں وہاں اﷲ تعالیٰ
کی رحمت کاخاص نزول ہوتاہے اور پھر پوری کائنات پہ وہ رحمت پھیل جاتی ہے جس
کی برکت سے آج یہ دنیاآباد ہے میں اور میرے اساتذہ اس خاک مقدس کے بارے میں
یوں کہاکیاکرتے ہیں
جس خاک میں سوتے ہیں سرکارِ مدینہ
جنت سے بھی اعلیٰ ہے وہ خاک مدینہ
نبی پاک ﷺ کے وصال کادردر جب دل ودماغ میں آتاہے تونعت کے یہ مصرعے پڑھ کر
اپنے دل ودماغ کوسکون دینے کی کوشش کرتے ہیں
باتیں بھی مدینے کی راتیں بھی مدینے کی
جینے میں یہ جیناہے کیابات ہے جینے کی
اچھاہواطیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے
اس وقت بھی گلیوں میں خوشبوہے پسینے کی
جینے میں یہ جیناہے کیابات ہے جینے کی
یہ زخم ہے طیبہ کایہ سب کونہیں ملتا
کوشش نہ کرے کوئی اس زخم کوسینے کی
جینے میں یہ جیناہے کیابات ہے جینے کی
طوفاں کی کیاپرواہ یہ بھول نہیں سکتا
ضامن ہے دعاان کی امت کے سفینے کی
جینے میں یہ جیناہے کیابات ہے جینے کی
ہر سال کے آنے کااعزاز ہے شاہد
اﷲ بناتے ہیں تقدیر کمینے کی
باتیں بھی مدینے کی راتیں بھی مدینے کی
جینے میں یہ جیناہے کیابات ہے جینے کی
ہر پڑھنے والااورسننے والاہاتھ اٹھائے اور اپنے رب سے منوائے اﷲ تعالیٰ ہم
سب کواپنابندہ اورنبی کریم ﷺ کاسچاغلام اورعاشق بنائے ،ہمیں چلتاپھرتااسلام
کاداعی بنائے اسی پہ زندہ رکھے اسی پہ موت نصیب فرمائے(آمین ) |