صنفی عدم مساوات اور ڈیرہ کی’’ شریفاں‘‘

آکسفیم سے میری واقفیت 2005ء کے بدترین زلزلہ کے وقت ہوئی تھی،ایک عالمی غیر سرکاری تنظیم کے طور پر متاثرین کے لئے اس کی خدمات آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں،سماجی بگاڑ کے خلاف اس کی جدوجہد بھی نمایاں رہی ہے،صنف کی بنیاد پر تشدد کے خلاف اس کی 16روزہ مہم شروع ہو چکی ہے ،اس مہم ک کے دوران سماجی رابطوں کی سائیٹس کو استعمال میں لایا جائے گا،کم عمری کی شادی کے منفی پہلو اجاگر کئے جائیں گے ،ایک واک کا بھی اہتمام کیا جائے گا اور یوتھ اسمبلی کا انعقاد بھی ہو گا۔نوجوانوں کو با اختیار بنانے کی بات ہو گی شیریں عباسی کے مطابق ان دو ہفتوں میں قانونی ماہرین اور سول سو سائٹی کے مابین مکالمہ بھی ہو گا ۔ایک تھیٹر کے زریعے بھی شعور کی دولت بانٹی جائے گی۔زمانہ جاہلیت میں زندہ گاڑھ دیئے جانے سے لے کر فی زمانہ ’’عورت‘‘ کا استحصال ختم ہوا نہ تشدد ، عصمت دری رُک سکی نہ غیرت کے نام پر گولی کی نذر کردینے کا سلسلہ ختم ہوا، ہنوزجلا دینے کی رسم بھی جاری ہے اور طرفہ یہ کہ خالق ِ کائنات کی اِس خوبصورت تخلیق کو تیزاب کے چند چھینٹے پھینک کر دیکھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ ظلم یہاں ختم نہیں ہوتا ،کہیں کاری، کہیں کالی، کہیں صورہ، کہیں مختاراں ماہی کی صورت، کہیں قندیل اور ملالہ، کہیں فرزانہ وینا، کہیں شاداں اور کہیں ڈیرہ کی شریفاں کو آج بھی وہی حالات درپیش ہیں۔ زمین میں گاڑھ دینا ننگے بدن گلی گلی دوڑانے، جسم نوچنے سے بدرجہ بہتر تھا۔ مٹی ڈال دو، عزت نفس مجروح نہ کرو، زندہ زمین میں دفن کردو مگر عصمت کو یوں تار تار نہ کرو،روح کو پامال نہ کرو،عورت سے جڑی ہر کہانی خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ بدن کانپ اُٹھتا ہے۔ اپنے آپ سے بھی گھن آنے لگتی ہے، آئینہ دیکھو تو ضمیر ہچکولے مارتا ہے، آنکھیں سامنا نہیں کرتیں،مجرم وہ نہیں جس کی ہنسی میں کسی معصوم کی چیخیں دَب کر رہ گئیں، مجرم وہ بھی ہے جو خاموش رہا ، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔انسانوں کے اِس جنگل میں عورت مشق ستم کیوں ہے۔ بازار میں مردانہ خونخوار نظریں ’’عورت‘‘ہی تاڑ میں دکھائی دیتی ہیں۔ گھر ہو یا دفتر ’’عورت‘‘ ہی گناہ گار ٹھہرائی جاتی ہے۔کام کرنے والی کو بھی کام کے قابل نہیں چھوڑا جاتا ۔ بے ضمیری جابجا ہے اور ہم مغرب پر الزام دھر کے متقی بن جاتے ہیں۔ کون نہیں چاہتا کہ صنفی امتیاز کا خاتمہ نہ ہو،جنس کی بنیاد پر تشدد جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکا جائے،عورت کو کمزور جان کر مشق ستم ہی نہ بنائے رکھا جائے۔ٹرانس جینڈر کو بھی بخشا نہیں جاتا،کون سا ظلم نہیں جو ان کے ساتھ روا نہیں۔۔۔وہ تو اس معاشرے میں رولنگ سٹون بنا کر رکھ دئے گئے ہیں اس کا زمہ دار کو ن ہے ؟ریاست ہی تو ہے جسے ماں کہا جاتا ہے۔بات عورت کی ہو تو یہ حقیقت ہے کہ عورت عزت ہے، ناموس سے عصمت ہے۔ پاک رِدا ہے ،اِسے گول روٹی نہ بنا سکنے کی سزا موت کی صورت کیوں دی جائے۔ اِسے وحشیوں کی طرح کیوں نوچا جائے۔ اِس صنفِ نازک کا اَنگ اَنگ رال ٹپکاتی نگاہوں کا مرکز کیوں ہو۔ ہمارا دین ہمیں کیا سکھاتا ہے، شریعت کیا بتاتی ہے، تہذیبی اقدار کیوں بھلائی گئیں، عورت کے زخموں پر نمک پاشی ہی مقدر کیوں ٹھہرا۔ مرد اپنے پورے انفرادی مسائل کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرا کر تسکین پانے کی ناکام کوشش ترک کیوں نہیں کردیتا۔عورت جو ماں بھی ہے ، بیٹی بھی، بیوی بھی ہے ، بہن بھی۔ اِس کا محافظ کیوں نہیں بنتا ، شعور کی دولت نئے نئے دریچے وا کرتی ہے۔ عورت پر ظلم اب ڈھکا نہیں رہتا، اُس کی چیخوں سے جہاں عرش ہلتا ہے ،وہاں فرش کے خدا بھی سنتے ہیں۔ آج کی عورت گزرے کل کی عورت سے کہیں توانا ہے۔ آج کی عورت گھر کی سربراہ بھی ہے اور گھر کی محافظ بھی ۔ گاڑی چلانے سے جہاز اُڑانے تک کا سفر عورت نے عبور کرلیا ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں عورت نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوایا ہو۔اِس کے باوجود اِسے معاشرتی ناہمواریوں کا سامنا ہے۔ قوانین کے باوجود دنیا بھر میں خواتین تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔خواجہ سرا مارے جا رہے ہیں۔1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا گیا تھا ۔ تاہم چوبیس سال سے زائد گزرنے کے بعداب بھی تین میں سے ایک عورت جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کر رہی ہے ۔ ایک فلاحی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دس ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔کم عمری میں شادی، زچگی یا تیزاب پھینکنے کے باعث جاں بحق ہونے والی خواتین کی تعداد میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں شامل 140ممالک میں پاکستان کا نمبر 115واں ہے ۔خواتین پر تشدد ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔ ہر معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی نوعیت منفردہوتی ہے ۔ اس پر ثقافتی عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ تشدد کی تین بنیادی اقسام ہیں:جنسی، ذہنی اور جسمانی۔ دیگر اقسام میں گھریلو تشدد،گھریلو بدسلوکی اور عصمت دری شامل ہیں ۔ پاکستان اور دیگر کئی معاشروں میں کاروکاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کردینا،شوہر اور سسرال والوں کی جانب سے تشدد، تیزاب پھینک دینا یا گھریلو اختلافات میں عورت کو جلا دینا تشدد کی عام پائی جانے والی اقسام ہیں ۔بعض اوقات روز مرہ کا تشدد ایسی عورتوں کو خودکشی جیسے سنگین راستے کو اپنانے پر بھی مجبور کردیتا ہے ۔ کاروکاری ملک کے کئی حصوں میں ایک عام روایت ہے جسے اس علاقے کی انتظامیہ اور پنچائتوں کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے ۔ کاروکاری ،سورہ کے نام پر کئی دوشیزائیں منوں مٹی تلے دب گئیں، اسکول ، کالجوں ، دفتروں اور بازاروں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے اعداد و شمار کا شمار ہی نہیں۔ تعلیم کی کمی عورتوں پر تشدد کے واقعات کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے ۔ غربت ، سماجی اقدار وروایات، مذہبی انتہا پسندی اور جنسی تعصب چند ایسے عناصر ہیں جو عورتوں پر تشدد کا باعث بنتے ہیں ۔ کئی گھرانوں میں بیٹے کی پیدائش کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ بیٹی کی پیدائش پر عورتوں کو نہ صرف شوہر اور سسرال والوں کے طعنوں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنا یا جاتا ہے۔ اسی طرح پسندکی شادی کرنے یا صرف شکوک کی بنیاد پر غیرت کا نام لے کر عورتوں پر تشدد کرنا یا انہیں قتل کردینا بھی ایک عام روایت ہے ۔ جائیداد کے تنازعات اور خاندانوں میں لڑائی ختم کرنے کے لیے ایک خاندان کی کم عمر لڑکی کی شادی دوسرے خاندان کے عمر رسیدہ فرد سے کرادی جاتی ہے ۔ جائیداد میں حصہ دینے کے ڈر سے لڑکی کی شادی قرآن سے کرادینا بھی ایک ایسا جرم ہے جو کئی قبائلی علاقوں میں جاری ہے اور جس پر حکومت بے بس نظر آتی ہے۔اس حقیقت سے انکار مفر ہے کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کو تسلیم کرنا ضروری ہوتاہے۔ سب سے پہلے حکومتی اور سماجی سطح پر عورتوں پر تشد کے خلاف کھل کر بات کرنا اور اس سے متعلق ضروری معلومات کا فروغ ضروری ہے ۔ میری ناقص رائے میں کسی بھی معاشرے میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے لیے مردوں میں ان مسائل کا ادراک اجاگر کرنا اور انہیں اس مہم کا حصہ بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔تعلیم کو عام کرکے عورتوں کے حقوق کے بارے میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔ عورتوں پر نہ صرف جنسی اور جسمانی تشدد بلکہ ذہنی دباؤ کا بھی اعتراف کرنا اہم ہے ۔ حکومتی سطح پر عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام، قانون سازی اور ان کے نفاذ کے بغیر خواتین کے خلاف تشدکو روکنا ممکن نہیں ۔ آکسفیم کی مہم اس بات کی متقاضی ہے کہ خواتین کو ہر سطح پر بااختیار بنایا جائے،ہر قسم کے تشدد کا خاتمہ کیا جائے،خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے،قوانین کی عملداری نمائشی نہ رکھی جائے ۔ اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو تشدد آمیز واقعات کے خلاف سزا کیلئے بنائے گئے قوانین سے ابھی کوئی نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کا ایکٹ(2010) ،عورت مخالف رسم و رواج کے خاتمے کا قانون،عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی روک تھام کا قانون،نیشنل کمیشن آن دا سٹیٹس آف ویمن کو بااختیار بنانے کا قانون،قیدی عورتوں کی فلاح کا قانون جیسے اہم قوانین بھی پاس کئے گئے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ سنائی یہی دیا جا رہا ہے کہ خواتین کی 33%نمائندگی کو بھی ختم کیاجا رہا ہے۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے سالانہ اعداد و شمار اکٹھے کرے لیکن افسوس یہ کام اس نے آج تک نہیں کیا گیا۔یوں مقامی سطح پر مختلف این جی اوز کی جانب سے اکٹھے کئے جانے والے اعداد و شمار سے سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین پر تشدد کے واقعات میں ہر سال کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں عورت اور مرد کے درمیان پائی جانے والی تفریق کا خاتمہ کیا جائے،قوانین کا عملی نفاذ ہو تا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی کوئی ’’شریفاں‘‘یو ں برہنہ دوڑائی نہ جا سکے، اور نہ ہی کوئی درجن بھر درندے کسی مختاراں کی روح تک کو پامال کر سکیں۔آکسفیم سے میری واقفیت 2005ء کے بدترین زلزلہ کے وقت ہوئی تھی اور یہ واقفیت آج باہمی تعاون کی انمٹ مثال بن چکی ہے۔

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.