حقیقی شہنشاہ

برادرم ایس ایس پی طارق عزیز کی زندگی سے بھر پور آواز میری سما عتوں میں رس گھو ل رہی تھی وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ صبح سے بے شمار لو گ شہنشاہ ِ لاہور سید علی ہجویری ؒ کے عرس مبا رک پر اُن کے مزار پر انوار پر حاضر ی کی سعا دت حاصل کر چکے ہیں ‘آپ کب آئیں گے طار ق عزیز صاحب کی داتا حضور سے عقیدت احترام بہت زیاد ہ ہے اِسی لیے عرس کے مو قع پر اُنہوں نے خو د اپنی ڈیو ٹی لگوائی اِس طرح وہ ڈیو ٹی کے ساتھ ساتھ حاضری کی سعا دت بھی حا صل کر رہے تھے اُن کی بار بار دعوت پر میرے اندر بھی سید علی ہجویرؒ سے عقیدت کی چنگا ری بھا نبھڑ بن گئی اور میں بھی دیوانہ وار شہنشا ہ ِ لا ہور سید علی ہجویرؒ کے مزار پر انوار کی طرف جا نے لگا ‘سارا شہر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا آپ کے دیوانوں پر وانوں نے اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہوا تھا گردش لیل و نہار کی رفتار اور صدیوں کا غبا ر اہل لا ہور کے دلوں سے سید علی ہجویری ؒ کی محبت کو دھند لا نہیں سکا ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی آپ ؒ سے وابستگی اور دیوانگی بڑھتی جا رہی ہے ‘دنیا جہاں سے پروانے آپ ؒ کے عرس مبا رک پر اپنی عقیدتوں کا اظہا ر کر نے آپ ؒ کے در پر آتے ہیں اور عقیدت و احترام کے پھو ل آپ ؒ کی چوکھٹ پر نچھا ور کر تے ہیں صدیاں گزر گئیں نسلوں کی نسلیں موت کے اندھے غار میں اتر گئیں لیکن آپ سے محبت و احترام میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضا فہ ہی ہو تا گیا صدیاں گزر گئیں لیکن گلشن لا ہور کا یہ نرالا پھو ل پہلے دن کی طرح مہکتا نظر آتا ہے جس کی خو شبو سے مشام جاں معطر ہو تے ہیں سید علی ہجویرؒ ایسا دلہا ہے جس کے سامنے کسی کا بھی حسن نما یاں نہ ہو سکا حکمران ایک کے بعد ایک آتے گئے فنا کی وادی میں اورگمنا می کے پر دوں میں غا ئب ہو تے گئے لیکن سید علی ہجو یریؒ تا ریخ کے کینوس پر سب سے نما یا ں ہیں‘ آپ کی عقیدت میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہے سکیورٹی کی وجہ سے گاڑیاں بہت دور ہی روک دی گئیں اب ہم بھی پید ل مزار پر انوار کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے تھے پو ری دنیا اور پا کستان سے آتے ہو ئے دیوانوں کے قافلے دیوانہ واربڑھ رہے تھے ہم بھی بہت عرصے بعد پید ل چل رہے تھے مجھے بہت لطف اور سرور آرہا تھا اِن زند ہ جا وید ہستیوں کے مزارات پر پید ل جانا ہی افضل ہو تا ہے بلکہ ننگے پا ؤں جا نا اور بھی افضل ہے دیوانے مختلف ٹو لیوں اور قافلوں میں جھو متے دھما ل ڈالتے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے دیوانوں نے آپ ؒ کے لیے خصوصی طو رپر تیا رکی گئی چادریں اٹھا رکھی تھیں چادروں کے ساتھ لنگر کے مختلف کھا نے مٹھا ئیاں سرو ں پر اٹھا ئے دیوانے اپنی عقیدتوں کا اظہار کر ر ہے تھے ہر چہر ے پر عقیدت و احترام کے پھو ل کھلے تھے حکمران جو طا قت کے زور پر اپنا استقبا ل کر اتے ہیں وہ اِن جذبوں سے محروم ہو تے ہیں لو گ اپنی مر ضی سے اپنے مر شد خا نے کی طرف بڑھ رہے تھے راستے میں کئی جگہوں پر لمبی لمبی قطا ریں لگی ہو ئی تھیں طو یل انتظار کے بعد لو گ حفا ظتی دروازوں سے گزر رہے تھے لو گ خو شی خو شی طو یل قطار وں میں آگے بڑھ رہے تھے ان دیوانوں میں ہر عمر کے لو گ شامل تھے بچے جوان بو ڑھے عورتیں اپنے مسیحا کی طرف دریا کی لہروں کی طرح رواں دواں تھے ہم بھی انسانوں کے سمندر میں شامل لہروں کی مانند آگے بڑھ رہے تھے اِن قافلوں میں امیر غریب زندگی کے ہر طبقے سے لو گ شامل تھے جن کے دلوں میں اولیاء کرام بستے ہیں سید علی ہجویری ؒ کے یہ دیوانے بھی مو سم اور راستے کی مشکلا ت کی پروا کئے بغیر آگے بڑھ رہے تھے اہل دنیا حیرت سے اِن دیوانوں کو دیکھ رہے تھے کہ حقیقی حکمران اور دل کا تا جدار تو سید علی ہجویری ؒ ہی ہے دلوں کا مسیحا تو سید علی ہجویری ؒ ہی ہے لوگ تن من سے اُن کے مزار پر انوار پر اپنی عقیدت کا اظہار کر نے آئے ہو ئے تھے چاروں طرف میلے کاسما ں تھا دیوانوں کے چہرے خو شی و مسرت سے کھلے ہو ئے تھے کو ئی نعرے لگا رہا تھاکو ئی جھو م رہا تھا کو ئی لنگر با نٹ رہا تھا اب ہم مزار پر انوار کے قریب آگئے تھے جہاں پر شیریں ٹھنڈے دودھ کی سبیلیں لگی ہو ئی تھی عقیدت مندوں نے عوام و خواص کے لیے دودھ کی سبیلیں لگا ئی ہو ئی تھیں جہاں پر زائرین اپنی پیا س دودھ سے بجھا رہے تھے اِن مزاروں پر لنگر اور سبیل کو بر کت کے لیے لگا یا اور کھا یا پیا جا تا ہے لو گ قافلوں کی صورت میں دودھ کے برتن اِس سبیل پر لا رہے تھے دیوانے اِس دودھ کو بر کت کے طو ر پر پی رہے تھے مزار کے اطراف میں انسانوں کا سمندر تھا جو لہروں کی طرح حر کت میں تھا اب ہم اندر جانے کے لیے انسانوں کے سمندر کو چیرتے ہو ئے آگے بڑھ رہے تھے یہاں پر بھی طو یل قطا روں میں دیوانے آگے بڑھ رہے تھے وطن عزیز کے دور دراز علا قوں سے پیر اپنے مریدوں کے ساتھ سلا م عقیدت پیش کر نے آئے ہو ئے تھے کہیں پر محفل نعت کہیں پر محفل سما ع کے روح پرور اجتما عات جا ری تھے کہیں پر عقیدت مند خطیب اپنی خطابت کے جو ہر دکھا رہے تھے بے پنا ہ ہجو م لمبی قطا ریں لیکن لو گ محبت و احترام سے آگے بڑھ رہے تھے کو ئی کسی سے جھگڑا نہیں کر رہا تھا او لیاء کر ام پیار و محبت ایثا رو قربا نی امن کا درس دیتے ہیں یہاں اِس کا عملی مظا ہرہ دیکھنے میں ا ٓرہا تھا مختلف گدیوں کے سجا دہ نشین اپنے مریدوں کے ہمراہ تا ریخ انسا نی کے سب سے بڑے بزرگ کے مزار پر انوار پر اپنی عقیدت کا اظہا ر کر نے آئے ہو ئے تھے مختلف رنگوں کے لباس پہنے سب اپنی عقیدت کا اظہار کر نے آئے تھے مریداپنے مر شدوں کے پیچھے سر جھکا ئے آہستہ آہستہ شہنشاہِ لا ہور ؒ کے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے اِس دربار پر بڑے سے بڑا ولی سجادہ نشین بھی سوالی بن کر آرہا تھا پونے دس صدیاں گزر گئیں اہل دنیا آسمان چاند ستا روں ہواؤں فضا ؤں نے ہر دور میں دیکھا کہ بڑے سے بڑا ولی بزرگ اِس آستا نے پر فیض لینے ضرور آیا جو شہرت ہجویر کے اس سید زادے ؒ کو حا صل ہوئی یہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی بلا شبہ آپ ؒ آسمان تصوف کے وہ سورج ہیں جس کے سامنے چاند ستا روں کی روشنی پھیکی پڑ جاتی ہے دیوانے اندر با ہر سے سید علی ہجویری ؒ کے رنگ میں رنگے نظر آرہے تھے دل و دماغ میں عقیدت کے چراغ جلا تے دیوانہ وار سلام عقیدت پیش کر نے آئے تھے طویل پیدل چلنے کے بعد آخر کار ہم گیٹ کے قریب آگئے جہاں پر برادرم طار ق عزیز پہلے سے چشم براہ تھا ہمیں دیکھتے ہی اُس کے چہرے پر خو شی کے چاند روشن ہو گئے وہ لپک کر آیا اور گلے سے لگ گیا میں عشق محبت احترام سے سید علی ہجویری ؒ کے لیے بنا ئی ہو ئی چادر ساتھ لا یا تھا اب ہم مزار کی چار دیواری کے اندر آگئے تھے ہم نیچے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی طرف آگئے تھے جہاں پر دیوانوں کا ٹھا ٹھیں ما رتا سمندر تھا دنیا جہاں سے آئے ہو ئے دیوانے مختلف ٹولیوں میں بیٹھے تھے لمبی قطاروں میں مزار پر انوار کی طرف بڑھ رہے تھے بھا ئی طا رق عزیز کی وجہ سے ہم آسا نی سے مزار کے قریب آئے تو میں حسب معمو ل خوا جہ خوجگان عطا ئے رسول سلطا ن الہند ؒکے حجرہ مبا رک کو بو سہ دیا پھر شہنشاہ ِلا ہو ر ؒ کے مزار کی طرف بڑھے راستہ بنا اور ہم حجرہ مبا رک کے اندر آگئے سید علی ہجویری ؒ کے حجرے کے اندر جسم و جان نشے سرور میں ڈوب رہے تھے انگ نلگ مستی سرور ایمان افروز لہروں میں ڈوب رہا تھا اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا کہ ولیوں کے سردار ؒ کے حجرہ مبا رک میں آنے کی سعادت ملی‘مزار پر موجود اہل ڈیوٹی نے سید علی ہجویری ؒ کی قبر مبا رک سے پھو لوں کے ہا ر اٹھا ئے اور ہم گنا ہ گا روں کے گلے میں ڈال دیں اِس عزت و احترام سے میرے با طن میں شکرانے کے دریا ٹھا ٹھیں مارنے لگے ہا تھ اٹھا ئے تو میری آنکھوں سے شکرانے کے دریا آبشار کی طرح ابل پڑے اور میں نذرانے اور شکرانے کے آنسو سید علی ہجویری ؒ کے حضور پیش کر نے لگا ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.