کچھ یوں بھی واقع ہو چکے ہیں ہم کہ ہماری خودی، تہذیب
اور اخلاقیا ت کے نام پر مار دی گئی ہے ۔ ذلالت آپ کا مقدر ہے! حالانکہ یہ
بھی سچ ہے کہ آپ کا سامنا انسان نما ہیولوں سے ہوتا ہے۔ لیکن میں ابھی تک
اس امر کا فیصلہکرنے سے قاصر ہوں کہ انہیں انسان کہوں یا جانور ؟ ہم محکمہ
پولیس کی ہی بات کرتے ہیں جس کے ذمے معاشرے میں امن و امان اور استحکام کی
صورتحال قائم رکھنے کی ایک اہم ذمہ داری ہے ۔ محکمہ پولیس میں بد تہذیبی ،
بد اخلاقی اور غیر سماجی عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ چلیں افسران بالا کی تو
ہم بات نہیں کرتے لیکن ایک عام سے قاصد یا سپاہی کا غرور بھی آسمانوں کی
بلندیوں کو چھو رہا ہوتا ہے ۔ ذلیل کرنے کا تو فی البدیہہ اور بنیادی
منصوبہ تشکیل ہے ، کسی بھی عام شخص سے کبھی سامنا ہو جائے تو اس قدر حقارت
سے پیش آؤ کہ آئندہ وہ کبھی غلطی سے بھی آپ کے پاس فریادی بن کر نا آئے ۔
کہیں بھی گھٹ گھٹ کر استحصال کا شکار ہوتے ہوتے مر جائے ہاں البتہ رشوت
دینے والوں کے سامنے ان کا غرور پست ہو جاتا ہے ۔سب سے بڑی بیماری جو انہیں
لا حق ہے جس کی وجہ سے میں انہیں انسان نما ہیولوں کا نام دیتا ہوں لیکن
انسان نہیں کہتا وہ یہ کہ ادارے جو ملک کی شان، اس کی بنیادیں اور سالمیت
کا مظہر ہیں بڑا افسوس ہے کہ انسانیت اور اخلاقیات کی حدود سے باہر کہیں
قائم کئے گئے ہیں ۔کیونکہ ان سے واسطہ پڑنے کے بعد خاص طور پر پولیس سے
واسطہ پڑنے کے بعد میرے جیسا ایک عام سا شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے
کہ جانے کس دیس میں آ گیا جہاں کوئی اپنا نہیں ملا ۔ یوں بھی ہو جاتا ہے کہ
اگر کوئی غلطی اداروں کے ذمہ داروں سے ہو جائے تو اس کا ذمہ دار بھی عام
عوام بنتی ہے جیسا کہ حال ہی میں میں نے دیکھا کہ محکمہ پولیس جھنگ کا ایک
قاصد یا سپاہی جو سول کپڑوں میں تھا میرے دوست کے پاس آیا جس کا کوئی
استحصال کر کے چلا گیا تھا اور اس نے محکمہ پولیس سے مدد مانگنے کی جسارت
کی تھی ، ویسے یہ بھی بڑی ہمت کی بات ہے کہ آپ ان اداروں میں اپنے ساتھ
ہوئے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھا ئیں حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ وہاں
جانا شرفاء کا کام ہی نہیں کیونکہ وہاں سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ نہیں
ملتا ۔خیر میں اپنی بات کی طرف آتا ہوں کہ اس پولیس والے نے پہلے تو آتے ہی
چڑھائی کر دی جیسے بہت بڑا ملک دشمن اور مجرم انسان انہیں بڑی تگ و دو کے
بعد ہاتھ لگا ہو اور پھر ایک رقعہ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا ۔ کہنے لگا
کہ آپ نے فلاں تاریخ کو ڈی ایس پی کے پاس پیش ہونا ہے اور اس پر پابندی
کیلئے حکم نامے کی تعمیل کرد یں ۔ میرے دوست نے اس رقعہ کو بغور پڑھا ، اس
کا کیا قصور بیچارہ پڑھا لکھا جو تھا اور پڑھنے لکھنے کا شوقین بھی بہت ہے
، اس نے دیکھا کہ ا سکا نام ملزموں میں ڈالا گیا ہے اور اس سے ملزم بنا کر
اس حکم نامے کی تعمیل کروا رہے ہیں حالانکہ اس کیس میں وہ مدعی تھا اور یہ
بات سارا محکمہ جانتا ہے جس پر میرے دوست نے ردعمل دیا کہ میں اس کیس میں
ملزم نہیں مدعی ہوں آپ اپنا ہوم ورک مکمل کریں اس کے بعد میرے پاس آئیں!
میں تعمیل کر دوں گا !کیوں کہ بات صرف دستخطی تک نہیں تھی اس پر انگوٹھا
بھی لگانا تھا جس کی بڑی اہمیت ہے ۔وہ پولیس والا بپھر گیا اور کہنے لگا کہ
میں تمہارا نوکر نہیں لگا ہوں!! غلطی جنہوں نے کی ہے ان سے با ت کرنا! مجھے
یہاں تعمیل کر کے دو! میرے دوست نے جواباََ کہا کہ بھائی میں نے کب کہا کہ
آپ نے غلطی کی ہے یا کسی نے کی ؟میں نے تو یہی کہا کہ ہوم ورک ٹھیک سے کریں
میں تعمیل کر دوں گا! جس کے جواب میں اہلکار چلاتے ہوئے بولا کہ تم نے
تعمیل کرنی ہے یا میں ابھی پولیس موبائل منگوا کر تجھے چھتروں کے ساتھ یہاں
سے لے جاؤں! اور پھر تاریخ تک حوالات میں پڑے رہنا ۔ جب گرما گرمی بڑھ گئی
اور ماحول نا سازگار ہوا تو میں نے مداخلت کرتے ہوئے دوست سے پوچھا کہ یہ
شخص کون ہے تو اس نے کہا کہ کوئی قاصد وغیرہ ہی ہوگا جو رقعہ لے کر آیا ہے
ابھی بات اس کے منہ میں ہی تھی تو ایک اور لفظوں کی گولی کھوپڑی کو چیرتی
ہوئی دل میں اتر گئی! اہلکار بول پڑا کہ تیرا باپ سپاہی ہے ! اور میرے دوست
کے گریبان تک پہنچ گیا میں نے انہیں دست و گریبان ہونے سے بچا لیا اور
پولیس والے کو وہاں سے بھیجا اور کہا کہ بھائی آپ جائیں اور پولیس کی گاڑی
لے آئیں اور پھر اس میں چھتر مارتے ہوئے اسے لے جانا ساتھ ،اس نے ایسے
تعمیل نہیں کرنی ۔ اس کے جانے کے بعد دوست نے بتایا کہ یہ بات صرف میری
نہیں بلکہ عوامی ہے، اس میں بہت سے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔ اس بار
نیا ڈی پی او جھنگ تعینات ہوا اور ا س کی بڑی تعریفیں سنیں کہ نہایت اچھا
انسان ہے تو اﷲ کا نام لے کر اس کے پاس پہنچے اور ا س کے سامنے عرضی پیش کی
تو اس نے بھی تذلیل کی کوئی کمی نہیں چھوڑی اور پھر جب اس کی انکوائری ڈی
ایس پی سٹی سرکل کے پاس لگی تو پہلی دو تاریخوں میں تو ملا نہیں سارا دن
وہاں بیٹھ بیٹھ کر واپس آ گئے جبکہ ملزمان ہمیں ایک بھی مرتبہ وہاں نظر
نہیں آئے اور جب تیسری دفعہ گئے تو گیارہ بجے کا وقت دے کر خود عصر کے وقت
افسر بالا پدھارے جن کے سامنے مؤقف پیش کیا تو انہوں نے ہمارے کیس کی فائل
ریڈر کو پکڑاتے ہوئے ہم سے صرف اتنا کہا کہ دیکھتے ہیں ہم آپ کیلئے کیا کر
سکتے ہیں اور اب یہ تعمیل کروانے والا آیا تو یہ اتنا واحیات بول کر گیا ہے
کہ دل نہیں مانتا کہ کسی سے انصاف مانگنے جائیں ۔وہیں ڈی ایس پی اور ڈی پی
او کے پاس میں نے دیکھا کہ اشراف طبقے کو عزت دی جاتی ہے جو بے شک ناحق بات
کیلئے ہی کیوں نا سفارش لے کر پہنچے ہوں اور جو حق مانگنے گئے ہیں! انہیں
یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ ادارے صرف مفت کی کھانے اور رشوت بٹورنے کیلئے بنے
ہیں تم اپنے مسائل ہمارے پاس مت لے آؤ وگرنہ تمہاری وہ حالت کریں گے کہ
دوبارہ آنے سے پہلے سو بار سوچو گے ۔ یہاں سوال یہ پید اہوتا ہے کہ یہ سب
کر کے محکمہ پولیس ثابت کیا کرنا چاہتا ہے ؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب
کرنے سے ان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے؟ یا وہ کوئی دھونس جما لیتے ہیں ؟ ہر
گز نہیں ! لیکن یہ امور ضرور ہو کر رہتے ہیں ! بد امنی ، معاشرے کا زوال،
عدم استحکام اور اداروں سے نفرت اور یہی سبب ہے جو عوام اور اداروں میں
فراق کا سبب ہے ۔اب تو لگنے لگا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہیں
بلکہ صدیوں پرانی جنگلی سلطنت میں آباد ہوں جہاں انسانیت ، اخلاقیات اور
تہذیب و تمدن نامی کوئی شئے نہیں تھی بس طاقت ، خونخواری اور جس کی لاٹھی
اس کی بھینس کے بل پر زندگی گزاری جاتی ہے ۔ |