اب تو مارکیٹ ریسرچ نے ایسے ایسے طریقے ایجاد کرلیے
ہیں،،،کہ کسٹمر کی
آنکھوں میں دن دیہاڑے دھول جھونک دی جاتی ہے،،،
اس کو پتا بھی نہیں چلتا،،،ایسے ایسے حربے کہ اچھا خاصا مجھ سا سیانا
بندہ بھی کئی بار لٹ کے آ چکا،،،
میں لوٹ سیل پر گیا تھا،،،اور لٹ کر آگیا۔
بہت سے فارمولے ایجاد ہو چکے جسے عام فہم میں دھوکا یافراڈ کہا جاتاہے
مگر اس دور میں اس کا نام مارکیٹنگ رکھ دیا گیا ہے،،،
بائے ون گیٹ ٹو،،ففٹی یا سیونٹی پرسنٹ سیل،،لوٹ لو آج میلا ہے،،یومِ آزادی
سیل۔۔
اک دوست بتا رہا تھا،،،سبزی والے نے سیل لگائی ہوئی تھی،،،وہ اک بھنڈی
پر دو بھنڈیاں فری دے رہا تھا،،،یعنی بائے ون گیٹ تھری،،،
ہم نے سوچا شاید فروٹ والے نے تربوز پر ایسا ہی کچھ کیا ہو،،،پر وہاں ایسا
کچھ نہیں تھا،،،
مجھ سا ڈیڑھ سیانا جوتے کی سیل دیکھ کر دوکان میں گھس گیا،،،جوتے
ایسے لگ رہے تھے جیسے ابھی کوئی مسجد سے اٹھا لایا ہو،،،
یوں سمجھ لیجئے،،،سیل والے جوتے کسی پرانے سے شوہر کے منہ جیسے
ہو رہے تھے،،،جس کی ساس نے اسے ابھی بہت سا ڈانٹا ہو۔
اگر کبھی کہیں کوئی اچھی سی سیل لگی بھی ہو تو وہاں لیڈیز ایسے جھپٹ
رہی ہوتی ہیں کہ اللہ کی پناہ،،،
دوکان میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے،،،کہ توبہ وہاں شاپنگ سے
ذیادہ سٹیج شو جیسا مزا آرہا ہوتا ہے،،،
عورتیں اپنے بچے تک بھول آتی ہیں،،،بچے کسی جوتے کے جوڑے کی طرح
یہاں سے وہاں گرتے پڑتے نظر آتے ہیں،،،
اب تو بڑے بڑےہورڈنگ کے ذریعے اپنی ملبوسات اور سیل کی پبلسٹی
کی جاتی ہے،،،لوگ پرائس اور دکان کے چکر گاڑی مار دیتے ہیں،،،
ماڈلز کو اس طرح کپڑے پہنا کر شوٹ کروایا جاتا ہےکہ ایسا معلوم ہوتا
ہے جیسے وہ بیچ سڑک سوئی ہوئی ہوں،،،
ان کو دیکھ کر لیڈیز سیم ڈریس کی شاپنگ کرلیتی ہیں،،،پھر شوہرسے
ایسے پوچھتی ہیں،،،‘‘کیا میں اس ماڈل جیسی لگ رہی ہوں یا نہیں،،،
شوہر بیچارہ اپنی حالت بچانے کی خاطر اپنی آخرت خراب کرلیتا ہے،،،ویسے
بھی یہ مارکیٹنگ کا دور ہے،،،شوہروں کا نہیں،،،
ہوشیار قسم کے شوہر اتنے پکے منہ سے جھوٹ بولتے ہیں،،،کہ ان کی بیوی
چاہتے ہوئے بھی ان کی انسلٹ نہیں کرپاتی،،،جس کا انہیں ہر پل افسوس
رہتا ہے۔۔۔۔۔
|