شاہ رخ ایک تعارف

شاہ رخ جو امیر تیمور کا بیٹا تھا تھا

شطرنج کی بساط پر میدان جنگ کا سماں تھا. ایک فریق کے مہرے پٹ رہے تھے. اس کی فوج مات کھا رہی تھی. اور اس کا بادشاہ سخت مشکل میں تھا.

جو شخصیت جیت رہی تھی ان کے سر اور داڑھی میں چاندی اتر چکی تھی. لیکن حوصلہ آج بھی جوان تھا. مضبوط جسم بڑے بڑے ہاتھ پاؤں، چوڑا شانہ مرعوب کن چمک لیے ہوئے آنکھیں. اچانک ایک خادم نے حاضر کے اجازت لی اور اجازت ملتے ہی صاحبزادے کی بشارت دی. اس وقت سفید ریش کی خوشی دیدنی تھی. یہ ان کی چوتھی نرینہ اولاد تھی. انہوں نے بساط پر نظر ڈالی جہاں ان کا رخ فریق مخالف کے شاہ کو مات دے رہا تھا. بازی کا فیصلہ ہو چکا تھا. اور جیت ان کو مقدر تھی.

بچے کی پیدائش کی خبر اس وقت ملی جب شطرنج کی بساط پر ان کا رخ فریق مخالف کے شاہ کو مات دے رہا تھا. اس لیے اس یاد گار موقع کی مناسبت سے نو مولود بچے کا نام "شاہ رخ" رکھا گیا.

یہ شاہ رخ نا تو پڑوسی ملک کے فلمی ہیرو شاہ کی داستان پیدائش ہے اور نہ ہی یہ گل نوخیز اختر کے ناول "ٹائیں ٹائیں فش " کے کردار شاہ رخ بیچارے کا قصہ ہے. یہ تو مسلمان دنیا کے ایک نامور شخصیت، دلیر اور جنگجو سپہ سالار امیر تیمور کے بیٹے کی داستان پیدائش ہے. وہ امیر تیمور جسے آج مسلمان بھول بیٹھا ہے. وہ امیر تیمور جس نے عملی میدان میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑھتے رہے بلکہ شطرنج کی بساط پر جیت بھی مقدر بنی.

شاہ رخ نے ٢٠ اگست ١٣٧٧ کو سمر قند میں آنکھ کھولی. ابتداً ہی مروجہ علوم و فنونِ حرب کی تعلیم دی گئ. بہت کم سنی میں انہیں مملکت کا انتظام سنبھالنے کا موقع ملا. اگرچہ یہ عارضی تھا لیکن چالیس برس کی عمر میں ان کو امیر تیمور کی مملکت کا مستقل باگ دوڑ سنبھال لی اور ٤٣ برس تک اپنے علم، فہم و فراست کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اس مملکت کو اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنائے رکھا. انہوں نے کئ جنگی مہموں اپنی شجاعت اور ذہانت کا لوہا منوایا ١٣٩٣ میں انہیں سمر قند کے علاقوں کا حاکم مقرر کیا گیا. تین سال بعد انہیں ایران، ہشام اور ایشیائے کوچک کی مہمات میں شرکت کے لیے جانا پڑا.

حلب کے محاصرے کے وقت نہایت نازک موقع پر فوج کی کمان شاہ رخ کے ہاتھ میں تھی مملکت کا فرماں روا بننے سے قبل وہ خاصے عرصے پورے خراسان پر حکومت کرتے رہے.

شاہ رخ نہ صرف جنگی اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال تھا اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک رحم دل اور علم دوست حکمران تھے. ان کی علم دوستی کی وجہ سے بڑے بڑے نامور علماء اکرام اور اہل فن، دارالحکومت ہرات میں یکجا ہو گئے تھے.
(شاہ رخ کےدور کے علمی کارنامے اگلی قسط میں)

شاہ کے عہد میں ان کے قابل بیٹے الغ بیگ بھی علم کی سر پرستی بہت اچھے انداز میں کی. انہوں نے سمر قند میں مدرسہ الغ بیگ کی بنیاد رکھی. رصدگاہ کا قیام بھی ان کا کارنامہ ہے.

شاہ رخ کا دور فن تعمیر کے حوالے سے بھی یادگار ہے. ان کے دور متعدد ایسی عمارتیں تعمیر ہوئیں. جنہیں بجا طور پر فن تعمیر کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے. مسجد گوہر شاد، مدرسہ ہرات، مدرسہ خرجرد، مسجد شاہ اور مقبرہ شاہ نعمت اللہ شامل ہے.

تیموری فن تعمیر کے اثرات دور دور تک پہنچے،؟ مغل اپنے ساتھ برصغیر پاک و ہند لے آئے چناچہ برصغیر کی قدیم مساجد میں ہرات کی مسجد گوہرشاد کی جھلک نظر آتی ہے.

شاہ رخ نے ہرات میں جو عمارتیں تعمیر کروائیں. ان میں ایک بہترین مدرسہ اور مسجد بھی شامل ہے. ان دو عمارتوں کا شان و شوکت کے لحاظ سے ان کی عمارتوں کا مقابلہ سمر قند میں امیر تیمور کی بنوائ ہوئ بہترین عمارتوں سے کیا جا سکتا ہے.

شاہ رخ نے اپنے دور میں ہرات اور مرو کے شہروں کو بہت ترقی دی. مرو کو تو ازسرنو تعمیر کیا. شاہ رخ کے دور میں کاغذ سازی، خطاطی،صیقل گری، رنگ سازی، نقاشی اور جلد سازی کے بھی بہت ترقی کی.
شاہ رخ بہت نیک دل سچے مسلمان اور عبادت گزار حکمران تھے. حلم، فیاضی، سخاوت اقر امن پسندی کے جذبے سے سر شار تھے. حرص و ہوس سے دور شریعت کے پابند، نماز کا اہتمام کرتے، ایام بیض کے روضے رکھتے اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھتے. ہر جمعہ شام حفاظ سے تلاوت سنتے.

شاہ رخ نرم دل اور امن پرست ضرور تھے لیکن وہ کمزور اور بزدل حکمران نہ تھے. باغیوں کی سر کوبی کا معاملہ ہو یا دشمنوں سے ٹکر لینے کا سوال، وہ ہر محاز پر ہمت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے تھے.

شاہ رخ کا انتقال 13 مارچ 1441 کو ہوا. ان کے پانچ بیٹے تھے لیکن الغ بیگ نے اتنی لمبی عمر پائ کہ وہ مملکت کے فرمانروا بنے.

Ubaid ur Rehman MUAVIA
About the Author: Ubaid ur Rehman MUAVIA Read More Articles by Ubaid ur Rehman MUAVIA : 6 Articles with 8592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.