حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ کے حالات و مناقب (قسط اول)

آپ رحمتہ اللہ علیہ بہت ہی اہل تقوی بزرگوں میں سے ہوئے ہیں اور بہت سے مشائخ سے شرف نیاڑ حاصل کیا۔ بہت عرصہ تک حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپآپ کو وہ تمام علوم حاصل تھے جو اولیاء کرام کو ہوا کرتے ہیں اور در حقیقت آپ گنجینہ علوم کی کلید تھے ایک مرتبہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا لیکن امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے “سیدنا“ کہہ کر خطاب کیا اور اپنے نزدیک جگہ دی اور جب لوگوں نے سوال کیا کہ انہیں سرداری کیسے حاصل ہو گئی تو امام صاحب نے فرمایا کہ ان کا مکمل وقت ذکروشغل میں گزرتا ہے اور ہم دناوی مشاغل میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

ابتداء میں آپ بلخ کے سلطان اور عظیم المرتبت حکمران تھے۔ ایک مرتبہ آپ محو خواب تھے کہ چھت پر کسی کے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی تو آواز دے کر پوچھا کہ چھت پر کون ہے؟ جواب ملا کہ میں آپ کا ایک شناسا ہوں۔ اونٹ کی تلاش میں چھت پر آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا چھت پر اونٹ کس طرح آ سکتا ہے آگے سے آواز آئی آپ کو تاج و تخت میں خدا کس طرح مل جائے گا۔ یہ سن کر آپ ہیبت زدہ ہو گئے اور دوسرے دن جب دربار جما ہوا تھا تو ایک بہت ہی ذی حشم شخص دربار میں آ پہنچا۔ حاضرین پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ کسی میں کچھ پوچھنے کی سکت باقی نہ رہی اور وہ شخص تیزی کے ساتھ تخت شاہی کے نزدیک پہنچ کر چاروں طرف کچھ دیکھنے لگا۔ اور جب ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ نے سوال کیا کہ تم کون ہو اور کس کی تلاش میں آئے ہو؟ تو اس نے کہا میں قیام کرنے کی نیت سے آیا تھا لیکن یہ تو سرائے معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں قیام ممکن نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ برادرم یہ سرائے بلکہ شاہی محل ہے اس نے سوال کیا کہ آپ سے پہلے یہاں کون آباد تھا فرمایا کہ میرے باپ دادا ۔ غرض کہ اس طرح کئی پشتوں تک پوچھنے کے بعداس نے کہا اور اب آپ کے بعد یہاں کون رہے گا فرمایا کہ میری اولادیں اس نے کہا ذرا تصور فرمائیے کہ جس جگہ اتنے لوگ آ کر چلے گے اور کسی کو ثبات حاصل نہ ہو سکا وہ جگہ اگر سرائے نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اچانک غائب ہو گیا اور ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ چونکہ رات ہی کے واقعہ سے بہت مضطرب تھے اس لئے اس واقعہ نے بھی بے چین کر دیا۔ آپ اسکی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے اور ایک جگہ جب ملاقات کے بعد آپ نے ان کا نام دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے حضر کہتے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں آپ لشکر سمیت شکار کے لئے روانہ ہوئے لیکن لشکر سے بچھڑ کر جب تنہا رہ گئے تو غیب سے ندا آئی کہ اے ابراہیم موت سے قبل بیدار ہو جاؤ اور یہ آواز مسلسل آتی رہی جس سے آپ کی قلبی کیفیت دگرگوں ہوتی چلی گئی پھر اچانک سامنے ایک ہرن نظر آ گیا اور جب آپ نے شکار کرنا چاہا تو وہ بول پڑاکہ اگر آپ میرا شکار کریں گے تو آپ خود شکار ہو جائیں گے اور کیا آپ کی تخلیق کا یہی مقصد ہے کہ آپ سیر و شکار کرتے پھریں پھر آپ کی سواری کے زین سے بھی یہی صدا آنے لگی اور آپ گھبرا کر اس طرف متوجہ الی ہوئے کہ قلب نور باطنی سے منور سا ہو گیا۔ اس کے بعد آپ تخت و تاج کو خیر باد کہہ کر صحرالبصحر ا گریہ وزاری کرتے ہوئے نیشاپور کے قرب و جوار میں پہنچ کر ایک تاریک اور بھیانک غار میں مکمل نو سال تک عبادت میں مصروف رہے۔ اور ہر جمعہ کو لکڑیاں جمع کر کے فروخت کر دیتے اور جو کچھ ملتا آدھا راہ مولا میں دے دیتے اور باقی ماندہ رقم سے روٹی خرید کر نماز جمعہ ادا کرتے اور پھر ہفتہ بھر کے لئےغار میں چلے جاتے۔

موسم سرما میں یخ بستہ پانی کو جس نے برف کی شکل اختیار کر لی تھی توڑ کر نہائے اور پوری شب مشغول عبادت رہے اور صبح کو جب ہلاکت آمیز سردی محسوس ہونے لگی تو آپ کو آگ کا خیال آیا اور ابھی اسی خیال میں تھے کہ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے پشت پر گرم پوستین ڈال دی ہو جس کی وجہ سے پر سکون نیند آ گئی اور جب بیداری کے بعد دیکھا تو ایک بڑا اژدھا تھا جس کی گرمی نے آپ کو سکون بخشا یہ دیکھ کر آپ خوفزدہ ہو گئے اور اللہ تعالی سے عرض کیا کہ تو نے اس کو میرے لئے وجہ سکون بنایا لیکن اب یہ قہر کے روپ میں میرے سامنے ہے یہ کہنا تھا کہ اژدھا پھن زمین پر مارتا ہوا غائب ہو گیا۔
جب عوام کو آپ کے مراتب کا صحیح اندازہ ہو گیا تو آپ نے اس غار کو خیرباد کہہ کر مکہ معظمہ کا رخ کیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ شیخ ابو سعید رح نے اس غار کی زیارت کر کے فرمایا کہ اگر یہ غارمشک سے لبریز کر دیا جاتاجب بھی اتنی خوشبو نہ ہوتی جتنی ایک بزرگ کے چند روزہ قیام سے موجود ہے۔ (جاری)
 

M. Asim Raza
About the Author: M. Asim Raza Read More Articles by M. Asim Raza: 13 Articles with 30240 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.