اب تک اربوں نہیں کھربوں انسان اس مادرِگیتی پر تشریف لا
چکے ہیں۔ ہرنومولود اپنےخاندان، قبیلہ، اوربعض اوقات پوری قوم کے لئے باعثِ
خوشی اور انبساط بنتا ہے اور یوں اس کا یوم ولادت جوش و خروش سے منایا جاتا
ہے۔ مگر زمانہ کی گرد اس کی یاد کو سینوں سےجلد ہی مٹا دیتی ہے۔ تاریخ
انسانی گواہ ہے کہ بہت سے افراد بنی نوع انسان کے لئے تباہی و بربادی،
گمراہی اورعذاب کا باعث بنے جبکہ چند افراد اپنی قوم میں اعلیٰ اقدار کو
رواج دے کر اس کی توقیر میں اضافہ کا موجب بنے۔ تاہم چند ہستیاں ایسی بھی
آئیں جو انسانوں کو جہالت سے نکال کر رشد و ہدایت کا سبب بنیں۔ مگر ان کی
مساعی وقت کی گرد اور گردش زمانہ کی وجہ سے تھوڑے ہی عرسہ میں اپنے اثرات
کھو بیٹھی اور یوں ان کی یاد سینوں سے مٹ گئی۔ مگر ایک ہستی ایسی بھی آئی
جس کا یوم ولادت ایک عشرہ نہیں، ایک صدی نہیں، بلکہ ساڑھے چودہ سو سال سے
نہایت عقیدت و احترام، انتہائی جوش و خروش اور دل کی عمیق گہرائیوں سے
احسانمندانہ اور تشکرانہ انداز میں منایا جاتا ہےَ۔
یہ عظیم ہستی، یہ وجہ وجودِ کائنات، غریبوں کا ملجا و ماویٰ ، یہ حکمت و
دانائی کا منبع و محور، یہ ھر قسم کے ازم اور ظالمانہ نظم کو ختم کرنے
والا، دنیا کے "سو عظیم انسانوں کی لسٹ میں سب سے اول" ، ایک روایت کے
مطابق 12 ربیع الاول، پیر کے دن صبح صادق کے وقت تشریف لائی۔ آفتابِ دنیا
نے ابھی مکہ کی گلیوں کو بقعہ نور نہیں بنایا تھا کہ تاروں نے تقریباَ پوری
رات کے چاند کو سر گوشی کے انداز میں ایک بڑی ہی عظیم نعمت کو آسمانِ دنیا
سے بی بی آمنہ کے گھر اترنے کی بشارت دی۔ تاریخ انسانی کا یہ منفرد واقعہ
دراصل حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت تھی۔
ائیں بی بی آمنہ سے پوچھیں، ابو لہب کے خوشی کے لمحات کی وجہ جانیں، اور
وادئ فاران کے ذ روں اور شجر و حجر اور مکہ کی گلیوں سے معلوم کریں کہ
انہوں نے 12 ربیع الاول سے پہلے اور اس دن کیا دیکھا اور سنا؟ َ آپ صل اللہ
علیہ وسلم کا سکا چچا ابو لہب جو بعد میں بڑا دشمن ثابت ہوا اپنی لونڈی کو
آزاد کر دیتا ہےصرف اس لئے کہ اس نے ابو لہب کوسب سے پہلے آپ صل اللہ
علیہ وسلم کی ولادت کی خبر سنائی تھی۔ یہ حضرت عبدالمطلب ہیں جو اپنی
پیرانہ سالی کے باوجود اپنے یتیم پوتے کو گود میں اٹھائے کبعتہ اللہ کی طرف
دوڑے جا رہے ہیں اور فرطِ محبت میں آپ کا نام "محمد" رکھتے ہیں۔ یہ نام
رسمی نہیں بلکہ اسم با مسمیٰ ثابت ہوا۔
آئیےغور کریں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے حضرت آمنہ کو سر زمین
عرب کی حدود سے باہر کیا دکھایا گیا؟ آپ نے دیکھا کہ کمرہ نور سے بھر گیا
ہے۔ قیصرروم کے ماتحت ملکِ شام کے محلات روشن ہو جاتے ہیں اور محل کے 14
کنگرے گر جاتے ہیں اور کسریٰ کے شاہی عبادت خانہ میں صدیوں سے روشن آگ بجھ
جاتی ہے۔ کبعتہ اللہ میں رکھے بت منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔
پوری دنیا میں معاشرتی، اخلاقی، تہذیبی، مذہبی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے
حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے زمانہ کو " دور جاہلیت "
سے پکارا جاتا ہے۔ وہ کونساظلم، جرم یا گناہ تھا جو اس زمانہ میں نہ کیا
جاتا تھا ، وہ کونسی اخلاقی اقدار تھیں جن کی پامالی نہ ہوتی تھی۔ انسانیت
ہر شعبہ زندگی میں اخلاقی گراوٹ کی انتہائی حدود کو چھو چکی تھی۔ دنیا کی
متمدن اور ترقی یافتہ اقوام بھی اس سے مستشنیٰ نہ تھیں۔ ہر جگہ انسانیت بلک
اور سسک رہی تی۔
حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور اعلان نبوت سے دیدہ وروں
اور دور رس نگاہوں نے مشیتِ ایزدی کو بھانپ لیا تھا کہ مشرک و بت پرست ہوں
یا لا دین عناصر، کاہن ہوں یا جادو گر، عیسائی ہوں یا یہودی، مجوسی ہوں یا
ہندومت کو ماننے والے، اب انسانیت کو مزید گمراہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کا بے
رحمانہ شیطانی نظام دم توڑ دے گا اوراس کی جگہ انسانیت کی فلاح کا نظام،
ایک نہایت ہی عادلانہ نظام، ربِ کائنات کا نظام ،انسانوں کی رہنمائی کرے
گا۔
حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم نےآنےوالی زندگی میں انسانوں کو راہ راست
دکھانےکے لئے بے کس،غرباء ، مساکین اور بےسہاروں کا سہارا بننے، ظالمانہ
اور بے رحمانہ رسم و رواج کی پابندیاں ختم کرنے، مجبور اور بے بس انسانوں
کوظالم اورجابر حکمرانوں کےچنگل سےآزاد کرانے، لوگوں کو اجرامِ فلکی،حشرات
الارض،اپنےہاتھ سے تراشیدہ بتوں اور انسانوں کےسامنےسرجھکانےکی بجائے آللہ
واحد اور لا شریک کی عبادت اور راہ حق کی طرف بلانےکی خاطرسجدہ کی حالت میں
کمر پر اونٹ کی اوجھڑی کا بوجھ برداشت کیا، اپنوں اورغیروں سے کاہن، جادو
گر، پاگل، شاعر اور دیگر تکلیف دہ الفاظ سنے۔ طائف میں اپنے جسم کو لہو
لہان کرایا۔ اپنےآبائی شہرکوچھوڑ کر پانچ سو کلو میٹر دور ایک چھوٹی سی
بستی کو اپنا مسکن بنایا۔ دانت شہید کرائے، چہرہ مبارک لہو لہان کرایا اور
انتہائی نا مساعد حالات میں صحابہ کرام کی قلیل تعداد کی قیادت
کرنےہوئےنوزائیدہ اسلامی مملکت کو بیح و بن سے اکھاڑنے کی یہود و نصاریٰ
اور مشرکین اور بت پرستوں کی تمام تر مساعی کو ناکام بنایا۔
ہندو مت، زرتشت، یہودیت اورعیسائیت کے جید علماء و مستشرقین، چوٹی کے
انجنیر، ڈاکٹر اور سائنسدان، عالمی شہرت یافتہ فلاسفر، پروفیسراور ماہرین
تعلیم، مشہور زمانہ ادیب و شاعر، دلوں کی دھڑکن بننے والے کھلاڑی، اتھلیٹ
اور فنون لطیفہ کی بلندیوں کوچھونے والے فنکار، دبدبہ او جاہ و جلال کےمالک
شہنشاہ، بھاری عوامی حمایت کے دعویٰ دار سیاست دان، وزراء اعظم اور صدور،
دنیا کی تجارت کو کنٹرول کرنے والے صنعت کار، تاجر اور بڑے بڑے مالیاتی
اداروں کے سربراہ، اپنے کندھوں پر تفاخر کے میڈل سجائے بڑے بڑے فاتح اور
جرنیل، اور اعلیٰ عہدوں پر فائز کار پردازانِ حکومت اس بات پر انگشت بدندان
ہیں کہ وہ جو غرباٰء، یتامیٰ، مساکین اور معاشرہ کے پسے ہوے طبقہ کا سہارا
بنا مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں یتیم و بے سہارا تھا، وہ جو انسانوں کو
حکمت و دانائی سکھانے اور نوربصیرت کی طرف بلانے آیا خود امیﷺ تھا۔ وہ جو
اخلاقیات کے اعیٰ معیار پر فائز تھا اس کی قوم " دور جاہلیت " میں سے گزر
رہی تھی، وہ جو بے مثل فاتح، نہایت رحیم اور شفیق حکمران کے طور پر مانا
گیا ان افراد میں پیدا ہوا جو باہم دست و گریبان رہتے تھےان کو ایک لڑی میں
پرو د یا، اوروہ جن پر قیصر و کسریٰ حکومت کرنا پسند نہیں کرتے تھے، اور وہ
عرب جو جہانگیری اور جہانبانی کے اصولوں سے نابلد تھے صرف تین عشروں میں
حکمرانی کے بہترین اصولوں پر عمل کرتے ہوے تیس لاکھ مربع میل پرحکومت کرنے
لگے۔ اور پھر اس عظیم ہستی نے اپنے قول اور فعل سے حربی تاریخ کو ایک نئے
باب " اسلامی ضابطئہ حرب" سے نوازا کہ لڑائی سے پہلے، لڑائی کے دوران اور
لڑائی کے بعد کن زریں اصولوں پر عمل کیا جائے تاکہ لڑائی باعث شر ہونے کی
بجائےانسانیت کے لئے باعث خیر ثابت ہو۔
تاریخ انسانی گواہ ہے کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اور ہستی
کے بارے میں اتنی کتب لکھی گئیں اور نہ ہی کسی کی ذات، اخلاق و کردار
اورعملی زندگی کو اس قدر موضوع بحث بنایا گیا۔ ہر شعبئہ حیات میں بام عروج
پر پہنچنی والی بے شمار ہستیوں نے مذہب، قوم، ملک اور نظریات کے تعصب سے
بالاتر ہو کر اپنی تحاریر اور تقاریرمیں نہایت ہی تشکرانہ، احسان مندانہ
اور مودبانہ طرزعمل اختیار کرتےہوئےبہترین اندازمیں خراج تحسین پیش کیا۔
آخر کیوں نہ ہو؟ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،
کے بارے خود رب العالمین فرماتے ہیں " تھارے لئے اللہ کے رسول بہترین نمونہ
ہیں" یعنی آپ صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کسی گوشہ، کسی پہلو، کسی عمل
پرغور کرو، دنیاوی زندگی کی کامیابی اور اخروی زندگی میں سرخروئی حاصل کرنے
کے لئے بہترین گائیڈ لائن ملے گی۔ افسوس! اہل مغرب کےکچھ نام نہاد متعصب
اوراسلانی تاریخ سےنابلد دانشوراورمذہبی لیڈر آئے دن کسی نہ کسی صورت میں
حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور ان کےلائےہوئےپیغام یعنی
اسلام کا مذاق اڑانےکے لئے اوچھےہتھکنڈوں کےذریعہ بد گمانی اور نفرت
پھیلانے کی سعی لا حاصل میں مصروف ہیں۔ دراصل یہ بےچارے "جاہلیت جدیدہ" کے
دور سے گزر رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کو ہدایت دے اور ان پر حق
واضح ہو جائے۔
ہم سب جشن عید میلاد النبی بڑے ہی اہتمام ، ذوق و شوق، نہایت ہی عقیدت اور
احترام سے مناتے ہیں۔ مگر افسوس کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے فرمودات،
احکامات، اسوہ حسنہ، اوراللہ تعالیٰ کی کتابِ ہدایت میں درج زندگی گزارنے
کے سنہری اصولوں پرعمل نہیں کرتے۔ نہ ہم نیکی کے راستہ پر سنجیدہ ہو کر
چلتے ہٰیں اور نہ ہی دوسروں کے لئے مثالی نمونہ بنتے ہیں۔ نہ ہی ہم منکرات
سے بچتےہیں اور نہ ہی دوسروں کو جہنم کی طرف جانے والے راستہ سے روکتے ہیں۔
کوئی بھی امر با المعروف اورنہی عن المنکر کا اہم فریضہ اس کی اصل مفہوم
اور روح کے مطابق انجام نہیں دیتا!!
چاہیےتو تھا کہ 12 ربیع الاول کے دن مساجد میں حاضری زیادہ ہوتی مگر ایسا
نہیں ہوتا۔ پٹاخے چلانے والے اذان اور نماز کےاوقات سے بے پرواہ اپنےکام
میں مصروف رہے۔ امت مسلمہ مسلکی اختلاف اور سیاسی انتشار کا شکار ہے ۔عالم
کفر کو ہماری کمزوریوں کا علم ہے تبھی تو اس کے ہاتھوں کسی اور مذہب کے
ماننے والوں کا نہیں صرف امت مسلمہ کا خون بہہ رہا ہےاور ہمارا طرزعمل ڈربہ
میں بند برائل مرغیوں کی طرح وقتی طور پر ہیجانی خطرہ پرصرف شور مچانے
کےمترادف ہے۔ بھرپور انداز سے منائے جانے والے مبارک دن عالم کفر کو واضح
پیغام ملنا چاہیے کہ عالم اسلام کے خلاف معاندانہ کاروائیاں فی الفور بند
کرے ورنہ اجتماعی ردعمل یعنی " امریکی اور یہودی اشیاء کا "مکمل بائیکاٹ"
کا سامنا کرے گا۔ اِن شاء اللہ یہ تجربہ کایاب رہے گا!!
ہم حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، ان سے عقیدت،
لگاو، تعظیم اور ان کی شفاعت و مغفرت ہمارے ایمان کا جزو ہے۔ آپ صل اللہ
علیہ وسلم نے Divine Book of Guidance میں دیے ہوئے Code of Life پر چل کر
د کھایا اور اللہ تعالٰی نے خود اس بات کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنتہ
آئیں اس اسوۃ حسنتہ پر پورا پورا عمل کریں۔ |