موت اُس کی ہے ،کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے
دسمبر کی خون منجمد کر دینے والی سردیوں کی ایک خنک شام تھی،میں اپنے کمرے
میں لیٹا تسبیح ِ روز و شب کا دانہ دانہ شمار کر رہا تھا ۔میرے پاس رکھا
گراہم بل (Alexander Graham Bell) کے زمانے کا قدیم ٹیلی فون کئی دِن سے
خاموش تھا کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔دوسری جانب میرا عزیز عبدالخالق
سعید مجھ سے مخاطب تھا ،اس نے مجھے اطلاع دی کہ اس کے چچا زاد بھائی نعیم
مسعو صادق نے عین عالم شباب میں عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب کے کُوچ کے
لیے رختِ سفر باندھ لیا ۔ عالمی کلاسیک کے باریک بین شارح، اُردو اور
پنجابی زبان کے معرو ف ادیب ،لوک ادب کے زیرک محقق اور معاصرعالمی ادب کے
نباض و نقاد نواز ایمن کے اس اکلوتے بیٹے کے جہان سے اُٹھنے کی جانکاہ
اطلاع سن کر دِل فرط ِ غم سے بیٹھ گیا۔ میں شدید سردی کے باوجود پسینے میں
شرابور اسی یاس و ہراس کے عالم میں ڈوبا میں لیٹ گیا ۔میری آ نکھوں کے
سامنے شعلہ ٔ مستعجل نعیم مسعود صادق کی مختصر زندگی کے لمحات گھومنے لگے
وہ کس طر ح ذرے سے آ فتاب بن گیا۔ کارِ جہاں کی بے ثباتی اور حیات ِ مستعار
کے سراب ہونے کے تصور پر دِل لرز اُٹھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیسا سانحہ ہو
گیا کہ اجل کے ہاتھوں ایک ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت
کی بھینٹ چڑھ گیا اور ہماری پُر نم آنکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔ہم سب
سوگوار اپنے اس نوجوان خدمت گار اور سعادت مند شاگرد کے سفر آخرت میں شرکت
کے لیے پہنچے ۔نعیم مسعود صادق کے سفرِ آخرت کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں
۔یہ دیکھ کر ہماری آ نکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں کہ نوجوان نعیم مسعود
صادق سفیدکفن میں ملبو س ابدی نیند سو رہا تھا ۔نوجوان نعیم مسعود صادق کا
سفید کفن سرخ گلاب کے تازہ پھولوں سے ڈھک گیا تھا اور کے چہرے پر سد ابہار
مسکراہٹ تھی ۔مرحوم کا والد نواز ایمن ،چچا منظور حسین اور قریبی رشتہ دار
فرطِ غم سے نڈھال تابوت کے پاس موجود تھے ۔صر صر ِ اجل نے اس شمع فروزاں کو
بجھا دیا جس کی تابانیاں اور ضیا پاشیاں اپنے چھوٹے سے گھر کی حدود سے نکل
کر پورے خاندان، معاشرے اور ملک تک پھیل گئی تھیں ۔نعیم مسعود صادق کی
اچانک رحلت سے زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر ،نگاہیں بے بصر ،آہیں بے اثراور
کلیاں شرر دکھائی دینے لگیں ۔وہ شعلۂ جوالا ، دبنگ لہجے میں بات کرنے والا
مقرر و مناظر جس نے زمانہ طالب علمی میں پیہم پانچ برس تک کُل پاکستان بین
الکلیاتی و جامعاتی تقریری مقابلوں میں وطن عزیز کے ہر شہر کے تعلیمی ادارے
سے پہلا انعام حاصل کر کے اپنی خداداد صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی تھی اس کے
گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لب خاموش تھے ،سامعین کے دِل و نگاہ میں جھانکنے
والے شاہین کی آنکھیں مُند چُکی تھیں۔ اپنے خوب صورت گھر کا بلاشرکتِ غیرے
مالک و مختار ہمارے سامنے چُپ چاپ لیٹا تھا ۔
حکم آیا خاموشی کو تو پھر حشر تلک چُپ
حِکمت تیرے پیغام کی ظاہر ہے اَجل سے
میرے پاس بیٹھے نواز ایمن کے دیرینہ ساتھیوں حاجی حافظ محمد حیات،عمر حیات
بالی،احمد بخش، شفیع ہمدم ،گدا حسین افضل ، عبدا لحلیم انصاری،محمد بخش
گھمنانہ،محمد شفیع ہمدم،فیض محمد خان،سجاد حسین اورمنیر حسین سب کی آ نکھیں
اشک بار تھیں ۔ صبر کی روایت اور مشیتِ ایزدی کی اطاعت میں سب نے لبِ اظہار
پر تالے لگارکھے تھے اور پتھرائی ہوئی آ نکھوں سے اس الم ناک صورت ِحال کو
دیکھ رہے تھے ۔ اس گھر میں شامِ الم کیا ڈھلی کہ درد کی ہوا کے مسموم
جھونکوں نے اُمید کے غنچوں اور مسرت کی کلیوں کو جھلسا دیا ۔ اس ہنستے
مسکراتے اور عطر بیز چمن میں ایسی خزاں نے ڈیرے ڈال دئیے جو شرمندۂ بہار
نہیں جس کے نتیجے میں خزاں کے سیکڑوں اعصاب شکن مناظر دیکھنے کے بعد الم
نصیب سوگوار بہار وں کے سوگ میں رشتۂ جاں برقرار رکھنے کے لیے طبعی طور پر
زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں۔طوفان نوح ؑ کی باقیات اس قدیم شہر
کے مضافات اور گرد و نواح میں واقع دیہات و قصبات سے آنے والے سیکڑوں
سوگوار گہری سوچ میں گُم تھے اور پُر نم آنکھوں سے چاند چہرے کی آخری جھلک
دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ یہ قیامت کی گھڑی تھی اچانک کلمہ ٔ شہادت کا
وِرد کرتے ہوئے نعیم مسعودصادق کے والد ،چچا اورقریبی عزیزوں نے گھر کے
مالک کو اس کے اپنے آبائی گھر سے اُٹھا یا اورشہرِ خموشاں میں اُس کے نئے
گھر کی جانب روانہ ہو گئے ۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
نواز ایمن نے بڑے کٹھن حالات میں اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے ہو نہار بیٹے کی
پرورش کی۔ آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں ،مشکلات کے طوفانوں اور آزمائشوں کی
آ ندھیوں میں بھی نواز ایمن نے نہایت استقامت سے کارِ آ شیاں بندی پر توجہ
مرکوز رکھی ۔ نواز ایمن کا روزگارضلع کچہری میں عرضی نویسی کے شعبے سے
وابستہ تھا ۔ ناخواندہ لوگوں کے مسائل سُن کر نواز ایمن اُن کی مرضی کے
مطابق عرضی لکھتا مگر ساتھ ہی انھیں فرضی مقدمات اور جُھوٹی گواہیوں کے
نتیجے میں ہونے والی تباہیوں سے متنبہ کرنا بھی اس کا شعار ہے ۔ اُس نے
ہمیشہ اِس بات پر زور دیتاکہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں حرص ،ہوس اور
خود غرضی نے تمام معائر کو پتھرا دیا ہے اور ہاتھ میں تیشۂ زر تھامے
بغیراِنصاف کے پتھر کا حصول بعید از قیاس ہے۔ ایک فیاض اور ہمدرد انسان کی
حیثیت سے نواز ایمن ستائش ،صلے اور متبادل انعام کی تمنا سے ہمیشہ بے نیاز
رہا ۔اس نے دردمندوں اور فقیروں کی سدا دل کھول کر مدد کی اور اُن کے ساتھ
ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا ۔اس کے احباب اورعقیدت مند جب اُسے ملنے
کے لیے آتے تو وہ ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتا۔وہ اُسے کوئی تحفہ پیش کرتے
تو وہ اِس عنایت پر ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرتا ۔ تعلیمی زندگی میں
نعیم مسعود صادق نے ہر امتحان میں امتیازی کا میابی حاصل کی ۔یہاں تک کہ
پوسٹ گریجویشن کے بعد مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو گیا اور لاہور میں
اہم منصب پر فائز ہو کر ملک و قوم کی خدمت میں مصرو ف ہو گیا۔مضافات کے
مکینوں کو بڑے صنعتی شہروں کی دھویں اور گرد سے آلودہ آب و ہوا راس نہیں
آتی ۔جس وقت نعیم مسعود صادق اپنا آبائی گھر چھوڑ کر ملازمت کے سلسلے میں
لاہورروانہ ہوا تو اس کے معتمد ساتھیوں اور ہم جماعتوں نے اُسے دعاؤں کے
ساتھ رخصت کیا۔جب وہ اپنا آبائی گھر چھوڑ کر ملازمت کے سلسلے میں لاہور جا
رہا تھا تو اُس کا ایک دیرینہ رفیق اور محرم راز شہباز خان جو کم کم بولتا
ہے وہ بھی موجود تھا ۔اس موقع پر شہباز خان نے گلو گیر لہجے میں مقتدا حسن
ند ا ؔفاضلی(1938-2016) کا یہ شعر پڑھا تو سب ساتھیوں کی آ نکھیں بھیگ بھیگ
گئیں ۔
گھر سے نکلے تو ہو سوچا بھی کدھر جاؤ گے
ہر طرف تیز ہوائیں ہیں بکھر جاؤ گے
نعیم مسعود صادق کا شباب بے داغ تھا اور وہ اخلاق کے بلند منصب پر فائز تھا
۔جب نعیم مسعود صادق باروزگار ہو گیا تواُس کے ضعیف والد نواز ایمن نے سکھ
کا سانس لیا،سجدۂ شکر ادا کیا ،صدقہ خیرات دی اور ضلع کچہری میں فرشِ زمین
پر بیٹھ کر گزشتہ پانچ عشروں سے جاری عرضی نویسی کا کام ترک کر دیا۔ عرضی
نویسی ترک کر کے اس درویش منش مرد خو د آگاہ اور تسلیم ورضا کے پیکر نے
تخلیق ادب پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کر لیا۔نوا زایمن اقلیم معرفت
کا مردِخو د آگاہ ہے جس نے کبھی درِ کسریٰ پر صدا نہ لگائی اور ہمیشہ اپنی
دنیا آپ پیدا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ۔نواز ایمن نے اپنے عزیزوں کو سدا یہ
نصیحت کی کہ قصر وایوان اور کھنڈرات کی جانب کبھی نہ دیکھو بل کہ اپنے مٹی
پر چلنے کا قرینہ سیکھو ۔پیراسائیکالوجی اور ما بعد الطبیعات میں گہری
دلچسپی رکھنے والا اپنی دنیا اورفقر و مستی کی اقلیم کا حاکم نواز ایمن ایک
ان جانے خوف سے دوچار تھا اور وہ مشاعروں میں بھی شاذ و ناد ر ہی دکھائی
دیتا تھا ۔ایک دِن گدا حسین افضل نے ایک ادبی محفل میں جب کلیم
عاجز(1920-2015) کے یہ شعر پڑھے تو سب ساتھیوں کی آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں :
بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو
بہار آئی ہے کیسی بہار دیکھو تو
یہ کیا ہوا ہے سلامت نہیں کوئی دامن
چمن میں پُھول کِھلے ہیں کہ خار دیکھو تو
گردش ِ ایام سدانوازایمن کے تعاقب میں رہی اوربہاروں کی جستجو میں اُسے
خزاں کے سمے کے سم کا ثمر بھی مشیتِ ایزدی کی صورت میں نا گوار نہ گزرا او
ر د س محرم اکسٹھ ہجری میں شہسوارِ کر بلا کی استقامت اس مردِ خود آگاہ کے
پیش نظررہی ۔اس کے گلشنِ ہستی میں جب بہار کے اِمکان پیدا ہوئے تونہ جانے
کس حاسد کی نظر نے اُس کے ہنستے مسکراتے باغ کی رعنائیوں ،رنگینیوں اور عطر
بیزیوں کو نگل لیا کہ یہ ہنستا مسکراتا چمن وقفِ خزاں ہو گیااور سکوتِ مرگ
میں گل افشانیٔ گفتار سے وابستہ حقائق کے مظہر سب منظر خیال و خواب بن گئے
۔ گُل چِین اَجل نے اس گل نو شگفتہ کو توڑ کر نواز ایمن کے نہاں خانہ ٔ دِل
میں نمو پانے والے گلشن ہستی کو بے ثمر ،منزلیں در بہ در ،اُمنگیں زیر
وزبر،زیست کے بقیہ لمحات کو مختصراور اُمنگوں کے گلشن کو خوں میں ترکر دیا
ہے ۔زندگی کی رنگینی ،رعنائی اور بُو قلمونی بلا شبہ ایک خوش گوار طرز عمل
اور لائق تحسین احساس کی امین ہے اس کے بر عکس موت ایک ایسے روح فرسا المیے
اور جان لیوا صدمے کی علامت ہے جس کا تصور ہی اعصاب شکن اور اذیت ناک المیہ
ہے ۔ نو جوان بیٹے کی وفات نے نواز ایمن کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی
کرچی کر دیا مگر وہ اسوۂ شبیرؓ پر عمل پیر اہو کر اﷲ کی رضا پر راضی تھا۔
موت کی قربت انسان کو زندگی کی کلفت سے بیگانہ کر دیتی ہے ۔ اس نے صبر کی
روایت میں مشیتِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ،ضبط کے منشور پر عمل
کرتے ہوئے اپنے آنسو پلکوں میں تھام لیے اور لب اظہارکو مقفل کر کے جامد و
ساکت بنا بیٹھا تھا ۔وہ اس راز سے آگاہ تھا کہ خالق کائنات اُس کے حالِ
زبوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کے دِل سے نکلنے والے درد انگیز نالے بھی
اس کی سماعت کی زد میں ہیں۔بلند ہمتی،شجاعت،صبر و تحمل اور خالق کائنات کی
حکمت پر یقین محکم کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ انسان اُس مر حلے پر
بھی زندگی کے لیے جد و جہد کرتا رہے جب محرومیوں ،مایوسیوں اور حسرتوں کا
عفریت ہر سُو منڈلانے لگے اور موت کے سائے اس کی طرف بڑھ ر ہے ہوں ۔موت کی
آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر رفتگاں کاسوگ منانا دلوں کو رفتگاں کی یاد سے
آباد رکھنے کا ایک موثر وسیلہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ گردشِ ایام کا جبر اور
حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ حجازی نسب کا یہ مدینہ مزاج
مستغنی و متقی شخص کُوفے جیسے ماحول میں زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور
ہے ۔
ہم جوگلشن میں تھے بہار نہ تھی
جب بہار آئی آ شیاں نہ رہا
موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ
اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت
سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر
ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا
تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں
اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی
سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا
صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ
اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم
اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے
رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے
نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس
ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو
جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و
آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت
کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ
گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور
اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو
کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل
اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی
کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس
اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ مصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس
متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے
لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی
اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب
دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔
میں تو ہر دُھوپ میں سایوں کا رہا ہوں جویا
مجھ سے لکھوائی سرابوں کی کہانی تم نے
پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے بہار کی جو رُک رُک کے تھم گئی
ہر ایک خار میری اُنگلیوں نے چُوما ہے
ہر ایک پُھول سے میرا خوں کا رشتہ ہے
دونوں سِروں پہ شمع جلے اور کتنی دیر
مختار کیا بتاؤں اندھیر ا ہے کِس لیے
جھنگ میں اپنے قیام کے دوران میں نعیم مسعود صادق نے اپنے عظیم والد کی
تحریک پر معاصر پنجابی ادب اور کلاسیکی ادب کا عمیق مطالعہ کیا ۔اس کا خیال
تھا کہ مطالعہ کی فراوانی سے ایک زیرک ،فعال اور مستعد ادیب اپنے اشہب ِ
قلم کی جولانی دکھا سکتا ہے ۔کتب بینی کے معجز نما اثر سے تخلیق کار کے
اظہار و ابلاغ کی روانی بحر بے کراں کی طغیانی کا رُوپ دھار لیتی ہے جس کے
سیل ِ رواں میں ہر قسم کے توہمات اور خام خیالی خس و خاشاک کے مانند بہتی
چلی جاتی ہے ۔وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ ایک چربہ ساز ،سارق اور کفن
دُزد مہا مسخرا متشاعر ایک ایسے سادیت پسند عفریت کی صورت میں معاشرتی
زندگی پر مسلط ہو جاتا ہے جس کی ہرزہ سرائی بلائے نا گہانی کی صورت اختیار
کر لیتی ہے، وہ معاشرتی زندگی سے ہوش و خرد کو بارہ پتھر کرنے پر تُل جاتا
ہے اور ہمیشہ اہلِ کمال کے درپئے آزار رہتا ہے ۔ وہ اپنے آبائی شہر کے اہلِ
کمال کی علمی و ادبی فضیلت کا بہت بڑا مداح تھا۔ اس علاقے میں اقتدار واجد
،نور احمد ثاقب ،محمد شریف خان،گدا حسین افضل ،شفیع ہمدم ،بشارت خان ،حاجی
حافظ محمد حیات ،عمر حیات بالی،محمدنوازخان،اظہر خان، فیض محمد خان،حیات
خان سیال، دیوان احمد الیاس نصیب،غلام مرتضیٰ شاکر تُرک،اسحاق مظہر اور
محمد بخش گھمنانہ کی تدریس کے اعجاز سے ذرے کو آفتاب اور خام دھات کو کندن
بننے کے فراواں مواقع میسر تھے ۔نعیم مسعود صادق نے جھنگ کی جن ممتاز علمی
و ادبی شخصیات سے اکتساب فیض کیااُن میں محمد شیر افضل جعفری، صاحب زادہ
رفعت سلطان، خضر تمیمی،شاد گیلانی،عبدا لحلیم انصاری،شارب انصاری،حاجی محمد
وریام،محمد کبیر، بیدل پانی پتی،سجاد بخاری ایڈوو کیٹ، احمد تنویر ، عباس
ہادی ،سید جعفر طاہر ،کبیر انور جعفری ،مظہر اختر ،خادم مگھیانوی،امیر اختر
بھٹی ،مظفر علی ظفرؔ ، رانا سجاد حسین،حیات خان سیال،سمیع اﷲ قریشی،سلطان
خان،شیر خان ،غلام علی خان چینؔ،منیر حسین اور معین تابش کےؔ نام قابلِ ذکر
ہیں ۔نعیم مسعود صادق نے ادیانِ عالم، فلسفہ ،علم بشریات ،تاریخ ،نفسیات ،
عمرانیات اورتنقید و تحقیق میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔اس کی زندگی سادگی
،خلوص ،دردمندی اور عجز و انکسار کا حسین مرقع تھی۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ
نمود و نمائش ،تصنع اور لاف زنی کو وتیرہ بنانے والے جعل ساز مسخرے خود
اپنی تخریب اور جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ وقت کے اس سانحہ کو کس نام
سے تعبیر کیا جائے کہ اس قماش کے بے کمال اور کم ظرف ابلہ کسی عفونت زدہ
ذرا سی آب جُو کے ٹھہرے پانی سے چند قطرے مستعار لے کر قلزم ذخار اور بحرِ
بے کراں کو نیچا دکھانے پر تُل جاتے ہیں ۔ شاہین صفت اہل ِ ہنر کے درپئے
آزار رہنے والے عفونت زدہ کرگسوں کی غیبت اور حرف گیری کو وہ نا پسند کرتا
تھا اور اس بات پر زور دیتا تھاکہ یہ متفنی عارضی بیساکھیوں کاسہار ا لے
کرآسمان پر تُھوکنے کی جوکوشش کرتے ہیں،ان کے باعث یہ اہلِ عالم کی نظروں
میں تماشا بن جاتے ہیں ۔ زمانہ طالب علمی میں نعیم مسعود صادق کوعالمی شہرت
کے حامل پنجابی زبان کے ممتاز شاعر افضل احسن رندھاوا (1937-2017)کی پنجابی
شاعری بہت پسند تھی۔چند برس قبل جھنگ کے معمر ادیب اور تحریک پاکستان کے
کارکن غلام علی خان چینؔ کے ہاں ایک ادبی نشست میں جب نعیم مسعو دصادق نے
پنجابی زبان کے ممتاز شاعر افضل احسن رندھاوا (1937-2017)کے یہ اشعار پڑھے
تو سامعین کی آنکھیں پُر نم ہو گئیں:
اِنج حالوں بے حال نی مائے
بُھل گئے اپنی چال نی مائے
میری چِنتا چھڈ دے اَیتھے
رُلدے سبھ دے بال نی مائے
میں دریاواں دا ہانی سی
تَرنے پئے گئے کھال نی مائے
افضل احسنؔ لو ہا سی پر
کھاگیا درد جنگال نی مائے
وقت کی مثال بھی سیل رواں کی مہیب لہروں کی سی ہے ۔اِس دنیا میں کوئی بھی
اِنسان نہ تو بیتے لمحات کی چاپ دوبارہ سُن سکتا ہے اور نہ ہی پُلوں کے
نیچے سے بہہ جانے والے آب ِ رواں کے لمس سے دوبارہ فیض یاب ہو سکتا ہے۔اس
دنیا میں سائے اور سراب قدم قدم پر انسان کو ریگ ِسا حل پر نوشتہ گردشِ
ایام کی تحریر، حباب کی سی ہستی اور نقش بر آب حیات مستعار کے انجام سے
متنبہ کرتے ہیں ۔ رودادِ جہاں کو ایک افسانہ سمجھنے کے باوجود انسان اس کی
رنگینیوں و رعنائیوں میں کھو جاتا ہے۔ اُنھیں اس بات کا گمان تک نہیں ہوتا
کہ اپنی جان سے بھی پیارے وہ عزیز جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں ہماری آ نکھوں
سے اوجھل ہو جائیں گے ۔ نوازایمن کو اپنے اس ہونہار اکلوتے بیٹے کی سعادت
مندی ،اطاعت اور وفا پر بہت ناز تھا ۔نعیم مسعود صادق کو نواز ایمن اپنی
ضعیفی کا عصا سمجھتا اور اس کی صحت و سلامتی کی ہمیشہ صدقِ دِل سے
دعا کرتا تھا ۔تقدیر اگر ہر مرحلے پر انسانی عزائم اور منصوبوں کے پرخچے نہ
اُڑادے اور ہر لمحہ اور ہر گام انسانی تدابیر کی دھجیاں نہ بکھیر دے تو وہ
تقدیر کیسے کہلا سکتی ہے ؟اختیار بشر پر جو پہرے لگے ہیں ان سے کسی طور مفر
نہیں۔نعیم مسعود صادق کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ وہ اپنے ضعیف باپ کی
توقعات پر پورا اُتر نے میں کامیاب ہو جائے گا مگر تقدیر کو کچھ اور منظور
تھا ۔نعیم مسعود صادق کی ذات سے اس کے باپ نے روشن مستقبل کے جو قصر ِ عالی
شان تعمیر کر ر کھے تھے ان پر اہلِ درد حاسدوں کے حسد کے باعث اکثر تشویش
میں مبتلا رہتے ۔ نعیم مسعود صادق کو علم ِ نجوم،پیرا سائیکالوجی اور مابعد
الطبیعات سے گہری دلچسپی تھی ۔ مافوق الفطرت عناصر جن میں آسیب،بھوت ،جن
،چڑیلیں ،آدم خور ،چھلاوے ،پریاں اور پھنکارتے ہوئے اژدہا شامل ہیں قاری کے
لیے یقیناً دلچسپی کا محور ہیں مگر ان داستانوں کا سب سے حیران کن ، عجیب
اور پر کشش پہلو یہ ہے کہ اگر انسان اپنی حقیقت سے آشنا ہونے کے بعد عزم
صمیم اور قوت ارادی سے کام لے تو نہ صرف آگ اُگلتے ہوئے اژدہا تہس نہس کیے
جا سکتے ہیں بل کہ مارِ آستیں بھی کیفرِ کردار کو پہنچائے جا سکتے ہیں۔اس
عالمِ آب و گِل میں انسانوں کی کشتی ٔ جاں جب سکوتِ مرگ کے بحر ِ بے کراں
کی منجدھار میں پھنس جاتی ہے تو بچ نکلنے کی کوئی اُمید بر نہیں آتی ۔ اپنے
باپ کی توقعات کے بارے میں ایک بار نعیم مسعود صادق نے شہزاد
احمد(1932-2012) کا یہ شعر پڑھا۔ فلکیات ،نجوم اور پیراسائیکالوجی کے ماہر
پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب زارو قطار رونے لگے اورروتے روتے ان کی ہچکی
بندھ گئی ۔
وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اُس کی
یہ شعر سنتے ہی فلکیات ، فلسفہ ،نجوم اور پیراسائیکالوجی کے ماہر پروفیسر
دیوان حسین احمد ارشد چونک اُٹھے اور زارو قطار رونے لگے ۔ اس موقع پر وہاں
موجود متعدد احباب شدت جذبات سے مضطرب و بے کل سے ہو گئے۔ احمد بخش ناصر نے
اپنے دِل پر ہاتھ رکھ لیا اوراس کے ساتھ ہی روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی
۔انھوں نے نعیم مسعود صادق کو گلے لگا لیا،اُسے پیار کیا اورآہ بھر کہا کہا
:
’’ جانِ پدر ! تمھاری آ نکھیں کچھ اور طرح کی باتیں بتا رہی ہیں ۔ تم کب سے
زرقا الیمامہ کی طرح سوچنے لگے ہو ؟ ‘‘
اس کے بعد پروفیسر دیوان احمد ایاس نصیب نے سب حاضرین سے دعا کے لیے ہاتھ
اُٹھانے کی استدعا کی اور اپنے خالق کے حضور گِڑ گِڑ ا کر اِلتجا کی :
’’ اے ہمارے رحیم و کریم خالق! میری دعا ہے کہ یہ گُل ِ نو شگفتہ خزاں کے
مسموم جھونکوں سے سدا محفوظ رہے اور ضعیفی کے عالم میں نواز ایمن کی آ
نکھوں میں اپنے نو جوان بیٹے کے خواب ہمیشہ سجے رہیں ۔‘‘
پا س بیٹھے ہوئے لوگ حیران تھے کہ گھڑی دو گھڑی کی فرصت ِ کار سے ہٹ کر
پروفیسر دیوان احمد الیا س نصیب اور ان کے معتمد رفقائے کار نہ جانے کس
جہاں میں کھو گئے ہیں ۔وہ علم بشریات اور نفسیات کے ماہراس یگانہ ٔ روزگار
فاضل کی مایوسی ،اضطراب اور جذبات حزیں کا راز سمجھنے سے قاصر تھے۔
مطالعہ ٔ ادب میں نعیم مسعود صادق جس انہماک کا مظاہرہ کرتا تھا وہ اس کے
ذوقِ سلیم کی عمدہ مثا ل تھا۔ اس کے ذاتی اور آبائی کتب خانے میں
تفسیر،سیرت النبی ﷺ، مذہب،عالمی کلاسیک،تاریخ ،فلسفہ ،نفسیات،عمرانیات،
ادبیات اور تنقید جیسے اہم موضوعات پر پانچ ہزار کے قریب نادر و نایاب کتب
موجود ہیں ۔ اپنے ذوقِ کتب بینی کے حوالے سے وہ بتا یا کرتا کہ جب انسان
غمو ں سے گھائل ہو اوروہ راحت کا سائل ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ مطالعہ پر
مائل ہو۔وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ صرف وہی ادبی کتب معیار اوروقار کی
رفعت کی شان لیے ہوتی ہیں جنھیں ایک بار پڑھنے کے بعد ذہن اس کے بار بار
پڑھنے پر اصرار کرے ۔ جانگسل تنہائیوں کے مسموم اثرات کا مداوا کرنے میں
کتب بینی کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ الفاظ و عبارت ،نادر
تشبیہات،استعارات،علامات اور تلمیحات کے قصر عالی شان تعمیر کرکے ان میں
ایک شانِ استغنا کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے ساغر صدیقی ،خادم مگھیانوی
،رام ریاض ،کبیر انور جعفری ،ارشاد گرامی اور فیروز شاہ جیسے خودی کے
نگہبان ادیبوں کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔ وہ اس بات پر ان
جری تخلیق کاروں کو خراج تحسین پیش کرتا تھا کہ جب حرفِ صداقت کاقحط پڑا تو
حریتِ فکر کے متعدد مجاہدوں نے کسی مصلحتِ وقت کی پروا نہ کی اور جبر کا ہر
انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ کو زادِ راہ
بنایا ۔ خلوص و دردمندی ، حق گوئی و بے باکی ، انسانیت کا وقار اور سر
بلندی ہمیشہ نعیم مسعود صادق کا مطمح نظر ر ہا ۔ نو جوان نسل میں عقابی روح
پیدا کرنا اس کا دیرینہ خواب تھا ۔زمانہ طالب علمی میں اُس نے اپنے ساتھیوں
کو ہم نصابی سر گرمیوں میں حصہ لینے پر مائل کیا۔اس نے چھو ٹی کلاسز کے
طلبا کو مضمون نویسی ،بیت بازی ،تقریری مقابلوں ،مشاعروں اور مباحثو ں میں
حصہ لینے کے انداز سکھائے ۔اِس تربیت کے خاطر خواہ نتائج بر آ مد ہوئے اور
ان نوجوان طلبانے ستاروں پہ کمندڈال کر اپنی خداداصلاحیتوں کا لوہا منوایا
۔ پندرہ بر س قبل شہر کے کچھ عمائدین اور محب وطن نوجوانوں نے اپنی مدد آپ
کے تحت ’’غم گسار ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی ۔نعیم مسعود صادق
اس تنظیم کی روح رواں تھا ۔اس تنظیم کا نصب العین اردو زبان کے ترقی پسند
شاعر فیض احمد فیض(1911-1984)ؔ کا یہ شعر تھا :
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دِل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
دُکھی انسانیت کے یہ بے لوث مُونس خدمت ِ خلق کے کاموں میں ہمہ وقت مستعد
رہتے تھے ۔نعیم مسعود صادق اور اس کے رفقانہایت رازداری کے ساتھ دردمندوں
،ضعیفوں ،غریبوں ،بیماروں ،فاقہ کش یتیموں اور مسکینوں کے پاس مر ہم بہ دست
پہنچتے اوراِن الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے زخموں کے اِندمال کی صورت تلاش
کرتے تھے۔ اپنے دیرینہ رفقا کی تنظیم ’’غم گسار ‘‘ کے تحت نعیم مسعو دصادق
کے معتمد ساتھیوں نے وطن ِ عزیز کے جِن ضرورت مندوں کی بے لوث خدمت کی ان
میں یتیم خانے ،نابینا ،سماعت اور گویائی سے محروم اور پس ماندہ بچوں کے
تعلیمی ادارے سر فہرست ہیں ۔ جھنگ کے قدیم شہر میں حاجی حافظ محمد حیات نے
اپنے رفقائے کار کے تعاون سے ’’رشتہ ٔ جاں ‘‘کے نام سے عطیہ ٔ خون کی
سوسائٹی بنائی تو نعیم مسعود صادق اور اس کے نوجوان رضاکار ساتھیوں نے اس
سوسائٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ۔خون کا عطیہ دینے والے ان رضاکاروں نے
’’رشتہ ٔ جاں ‘‘ کے مہتمم حاجی حافظ محمد حیات کے پاس اپنے خون کا گروپ اور
رابطے کا ٹیلی فون نمبر درج کرایا ۔مقامی شفاخانوں میں زیر علاج مفلس و
قلاش ،فاقہ کش و نادار مریضوں کی جان بچانے کے لیے جذبہ ٔ ایثار سے سرشار
ان با ہمت نوجوان رضاکاروں نے ہمیشہ اﷲ کریم کی رضا کو پیشِ نظر رکھااور
جاں بہ لب مریضو ں کے لیے خون کی بر وقت فراہمی میں کبھی تامل نہ کیا۔
ایک پُر عزم اور رجائیت پسند نوجوان کی حیثیت سے نعیم مسعود صادق خزاں کے
سکیڑوں مناظر میں بھی طلوع ِ صبح ِ بہاراں کا یقین رکھتا تھا ۔ گلزارِ ہست
و بود میں سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں وہ آفتاب و ماہتاب کی ضیا پاشیوں
کا معترف تھا ۔اس کے ساتھ ہی وہ اِس جانب بھی متوجہ کرتا کہ چشمِ بینا کو
یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ٹُوٹ پُھوٹ کا شکار پتھر ،موتی ،جام ،دُر ،سنگ ،خشت
اور شیشے کی کِرچیوں پر پڑنے والی شعاعیں منعکس ہونے کے بعد کیا رنگ دکھاتی
ہیں۔ اس کی رائے تھی کہ صرف وہی ادبی کتب قابلِ مطالعہ ہوتی ہیں جو قلب
اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر قاری کے ذہن و ذکاوت کو مسخر کر لیں
۔اس کا خیال تھا ایسی حق گوئی و بے باکی جس میں بے لوث محبت ، اصلاح ،شفقت
،خلوص ،دردمندی اور جذبِ دروں عنقا ہو وہ حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہے ۔ اسی طرح
اگر محبت کا دامن مروّت ،وفا ،ایثار ،خلوص اور دردمندی سے تہی ہو گا تو وہ
فریبِ سُود و زیاں کے مظہر سکوت کے صحرا کے اعصاب شکن سراب کا جان لیوا
عذاب ثابت ہوتی ہے ۔ وہ زیرک تخلیق کار کی تخلیقی فعالیت کو ایک ایسی ثمر
بار کاوش سے تعبیر کرتا جو جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق و صداقت کی
لفظی مرقع نگاری کی مظہر بن کر سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر ثابت ہوتی ہے
۔دیانت اور صداقت کی ترجمانی کے لیے اس کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے کی
ہر طرف دھاک بیٹھ گئی تھی ۔ دروغ گوئی ،منافقت،مصلحت اندیشی ،لالچ ،ہوس
،حرص اور طمع سے اس کا دامن کبھی آ لودہ نہ ہوا ۔حریتِ فکر کے اس مجاہد نے
ہوائے جورو ستم میں بھی مشعل ِ وفا کو فروزاں رکھا۔ اُس نے ہر قسم کے جبر
اور نا انصافی کے خلاف کُھل کربات کی اور مظلوم کی حمایت میں ہمیشہ سینہ
سپر رہا ۔اپنے من کی غواصی کر کے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے اور
اِس عالم آب و گِل میں حیات و کائنات کے اسرار و رمو ز کے گہر تلاش کرنا
ہمیشہ اس کا مطمح نظر ر ہا ۔اپنے تجربات،مشاہدات اور جذبات و احساسات کی
اساس پر اپنے افکار کا قصر ِ عالی شان تعمیر کرنا اس کا شعار رہا ۔اپنے
معتمد ساتھیوں کے ساتھ مشاورت اور گہرے غور و خوض کے بعد اپنی آزادانہ مرضی
سے وہ جو فیصلہ کر لیتااُس پر عمل پیرا ہونے میں وہ کسی ہچکچاہٹ، تذبذب
،لچک یا گو مگو کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا ۔وہ یہ بات زور دے کر کہتا تھا کہ
حرفِ صداقت لکھنے کے لیے قوت ِاستدلال، جرأتِ اظہار اور حریتِ ضمیر کی متاع
بے بہا نا گزیر ہے اور اُسے برداشت کرنے کے لے حوصلے اور ظرف کی اَشدضرورت
ہے ۔ اُس نے مستحکم شخصیت کی تعمیراورکردا رسازی میں حائل دوغلے پن کی فصیل
کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ اپنے موقف کی وضاحت کرتے
ہوئے وہ اکثر یہ شعار دہراتا تھا :
عشق قاتل سے بھی ،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کِس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی اِبلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کِس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
نعیم مسعو د صادق نے چپکے سے ہماری بزم ِوفا سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں
وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیا اور اس قدر دُور اپنی بستی بسالی کی اب
تو یاد ِ رفتگاں پر بھی کلیجہ منھ کو آتا ہے ۔ ابھی اس شمع فروزاں کی ضو
فشانیوں کا آغاز ہوا ہی تھا اور اس کی تابانیوں اور نشانیوں کی پوری طرح
پہچان بھی نہ ہو سکی تھی کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُس شعلۂ مستعجل کو
بجھا دیا ۔ اس کی عطر بیز یادیں قریۂ جاں میں ہر طرف بِکھری ہوئی ہیں ۔چشم
ِبینا کے سامنے اس کا چاند چہرہ ہروقت موجود رہتا ہے اورجس سمت بھی نگاہ
اُٹھتی ہوئی اس کے دبنگ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے کہ اگرچہ وہ جا چکا
ہے مگر وہ سدا محفلوں کی جان رہے گا۔خالقِ کائنات تمھاری منزلیں آسان
فرمائے ، اﷲ حافظ نعیم مسعود صادق ۔ہم الم نصیب پس ماندگان کی روح اور قلب
کی گہرائیوں میں تمھاری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ تمھاری یادوں کے حوالے
سے اس وقت جانثار اختر (1914-1976) کے یہ اشعار میرے ذہن میں گردش کرنے لگے
ہیں :
آہٹ سی کوئی آ ئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو |