جہیز

چند روز قبل ایک شادی پر جانے کا اتفاق ہوا دو دن تو بلکل ٹھیک گزر گئے جبکہ تیسرے دن میں نے دلہن کے بھائی کو چھت پر چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا۔
وہ کافی پریشان لگ رہا تھا میں بھی اسکے پاس چلا گیا اور پریشانی کی وجہ پوچھی پہلے تو اس نے بتانے سے صاف انکار کردیا لیکن میرے شدید اسرار کے بعد اسنے مجھے بتایا کہ جسکی شادی ہو رہے ہے وہ اسکی اکلوتی بہن ہے اور اسکے والد کے انتقال کے بعد اس نے اسے بہت لاڈ پیار سے پالا پوسہ ہے اور اسکی شادی کے لیے بہت مشکل سے روپیوں کا بندوبست کیا لڑکے والوں کی ہر ڈیمانڈ پوری کہ اور اب اچانک سے دلہے نے ایک عدد موٹر سائیکل کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ اسکے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔
خیر میں نے اسے کچھ روپے دے دیے اور اسطرح سے وہ تقریب مکمل ہوئی۔
گھر آکر میں نے اس پر تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ
شادی کے بعد جو سامان لڑکی والے لڑکے کو دیتے ہیں اسے جہیز کہتے ہیں ۔
مزید تحقیق کی تو پتا چلہ کہ یہ اصل میں ہندوستان کی رسم ہے نا صرف رسم بلکہ یہ انکا مزہبی عقیدہ ہے ۔
ہندو مذہب میں عورت کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اس وجہ سے وہ جہیز دے کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر گھنٹے بعد ایک خاتون جہیز نا لانے کی وجہ سے قتل کردی جاتی ہے۔
ہندو تو یہ کام اپنے مذہبی عقیدے کی وجہ سے کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلمان بھی اس ناسور کا اتنا ہیں شکار ہیں جتنا کہ ہندو جبکہ اسلام میں اس چیز کا تصور بھی نہیں ۔
لڑکی کی پیدائش جوکہ بلاشبہ اسلام اور سرکار دو جہاں کی تعلیمات کی رو شنی میں خوش بختی کی علامت ہے کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بد بختی میں بدل دیا ہے۔
جہیز کا یہ مرض لاعلاج بیماری کی طرح پھیل رہا ہے اور اس نے ہمارے معاشرے میں اہنی جڑیں مضبوط کر لیں ہیں۔
جسطرح سے رمضان المبارک میں ہر فرد نے پھل بائیکاٹ مہم کا حصہ بن کر اسے کامیاب بنایا بلکل ویسے ہی اس کے خلاف ہر سطح پر یا کم از کم خود اس ناسور کا بائیکاٹ کرکے اسکی جڑیں کمزور کی جا سکتی ہیں۔
ذرا سوچئے!

Muhammad Talha Jutt
About the Author: Muhammad Talha Jutt Read More Articles by Muhammad Talha Jutt: 2 Articles with 1249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.