احترام ِ انسانیت کا منشور

 ’’ لوگو! بے شک تمہارے خون ، تمہارے مال ، تمہاری عزتیں اور اولاد باہم ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح آج کا دن ، یہ مہینہ اور یہ شہر واجب الاحترام ہے۔ اے لوگو! اﷲ نے جاہلیت کے تمام غرور و نسب مٹا دیئے ہیں۔ تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے ، تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم الگ پہچانے جاسکو ، تم میں زیادہ عزت والا اﷲ کی نظر میں وہی ہے جو اﷲ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے۔ ہاں فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ صرف تقویٰ ہے۔ لوگو ! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو۔ کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کا مال اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ خود نہ دے دے۔مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو ، ہاں غلاموں کا خیال رکھو۔ انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو ، انہیں وہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو۔ لوگو ! عورتوں سے بہتر سلوک کرو ، کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں ، وہ خود اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں۔ اس لئے ان کے بارے میں اﷲ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اﷲ کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں۔ خبردار ! میرے بعد گمراہ یا کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو ، اس پر لازم ہے کہ وہ امانت والے کو ٹھیک ٹھیک لوٹا دے۔ اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں ہے ۔تم اس وقت تک گمراہ نہیں ہوگے جب تک قرآن و سنت کا دامن تھامے رہوگے‘‘۔یہ ہے احترام ِ انسانیت کے منشور پر مبنی خطبے کا خلاصہ جو آپ ﷺ نے قصویٰ اونٹنی پر سوار ہو کر دیا تھا جس کو تاریخ ِ اسلام میں خطبۂ حجۃ الوداع کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جو آج بھی دور حاضر کے تمام انسانی حقوق کا ہر پہلو سے احاطہ کرتا ہے اور جس کی رعنائیاں آج بھی جدید تہذیب کو خیرہ کر رہی ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئیاس دنیا میں بے شمار انبیاء و رسل مبعوث کئے۔اس سلسلہ ٔ رشد و ہدایت میں آپ ﷺ کو ختم ِ نبوت کا تاج پہنا کر اس دنیا میں بھیجا گیا اور تمام انسانوں کے لئے قیامت تک نبی بنایا گیا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ’’ (لوگو ! ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) نہیں، لیکن آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ‘ اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا (بخوبی ) جاننے والا ہے ‘‘۔آپ ﷺ جس معاشرے میں تشریف لائے اُس معاشرے پر ظلم و جہالت کے تاریک بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہر طرف کفر و شرک کا بازار گرم تھا ، کعبہ میں تین سو ساٹھ سے زیادہ بُت رکھے گئے تھے اور لوگ خانہ کعبہ کا برہنہ طواف کرنے کو باعثِ ثواب سمجھتے تھے۔اخلاقی پستی کا یہ حال تھا کہ برائی و بے حیائی کے کاموں پر اظہارِ فخر کیا جاتا۔عورتوں اور غلاموں سے شرم ناک سلوک روا رکھا جاتااور کمزوروں پر طاقت ور مظالم ڈھاتے ۔ الغرض احترام ِ انسانیت ، باہمی اخوت و محبت کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ آپﷺ نے چالیس برس تک اسی معاشرے میں زندگی بسر کی۔ جب اعلان نبوت کا حکم ملا تو آپ ﷺ مکہ سے باہر ایک اونچے ٹیلے پر تشریف لے گئے اور مکہ میں منادی کرادی کہ ٹیلے کے پاس جمع ہوجاؤ۔جب خاص و عام سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ ٹیلے کے اس پار دشمن کا ایک لشکر ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ‘‘۔ مجمع سے بیک زبان آواز آئی ۔ ’’ہاں ! کیوں نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ساری عمر جھوٹ نہیں بولا، آپ صادق اور امین ہیں ‘‘۔ تب آپ ﷺ نے توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’لوگو! سنو! اﷲ ایک ہے ۔ وہ وحدہ‘ لا شریک ہے۔جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو وہ خدا نہیں ہیں ‘‘۔ کفر و شرک میں مبتلا لوگوں کو آپ ﷺ کی دعوت توحید پسند نہیں آئی اور وہ گھروں کو لوٹ گئے۔لیکن آپ ﷺ نے دعوت حق کو گوشے گوشے تک پہنچایا اور صرف تیئس سالوں میں آزادی فکر اور احترام ِ انسانیت کی بناء پر ایک اسلامی سلطنت قائم کی۔آپ ﷺ نے آخری خطبہ میں بڑی جامعیت کے ساتھ احترام ِ انسانیت کا منشور پیش کرتے ہوئے والدین ، اولاد ، عورتوں ، غلاموں ، مساکین ، پڑوسیوں ، عزیز و اقارب اور مسافروں کے حقوق متعین کیے۔جس کے فوراً بعد آپ ﷺ پر آخری وحی نازل ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کر دیااور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے مذہب اسلام کا انتخاب کیا ‘‘۔ 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 266038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.