مسجدِ اقصیٰ اور ہماری ذمہ داریاں

فلسطین یا بیت المقدس وہ سرزمین ہے جس کے بابرکت ہونے کی گواہی قرآن نے دی ہے، یہی وہ سرزمین ہے جہاں کا سفر مسلمانوں کے لئے فخر اور درجات علیاکے حصول کا ذریعہ ہے، یہی وہ سرزمین ہے جس میں مسلمانوں کے لئے مسجد اقصی، عیسائیوں کے لئے بیت اللحم اور یہودیوں کے لئے دیوار گریہ کی اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ شہر ان تینوں مذاہب کے مابین ہمیشہ کشمکش کا مرکز بنا رہا ہے، انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں لکھا ہے کہ یہ شہر ۳۳ صدی پرانا ہے، آپ کو تعجب ہوگا کہ اتنا قدیم شہر اپنی تاریخ میں بہ مشکل بیس سال ایسے رکھتا ہے، جن کے دوران یہاں کے باشندوں کو امن نصیب ہوا، ورنہ نوع انسان کی خون آشام تاریخ یہاں اپنے آپ کو بار بار دہراتی رہی ہے، لیکن اس سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات کے باوجود اس کی تقدیس میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوئی۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ طوفانِ نوح کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی اولاد کے کچھ لوگ جزیرۃ العرب سے ہجرت کر کے ۲۵۰۰؁ ق م، اس سرزمین میں داخل ہوئے۔

اس کے بعد ۱۴۵۱؁ق م، کو یوشع بن نون نے بیت المقدس پر حملہ کر کے وہاں کے بادشاہ اور اس کے معاونین کو شکست دی، اس طرح بنی اسرائیل کا اس شہر میں داخلہ ہوا، یہ وہ زمانہ تھا جب بنی اسرائیل اﷲ کی محبوب قوم تھی، لیکن گردش زمانہ کے ساتھ یہ قوم اﷲ سے دور ہوتی گئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو ذلیل وخوار ہو کر وہاں سے نکلنا پڑا، یہاں تک کہ ان کی منشاء کے مطابق ۱۰۲۰؁ ق م، میں طالوت کو ان کا بادشاہ بنایا گیا، جس کا مقابلہ مشرکین کے سردار جالوت سے تھا، مقابلہ کے دوران ایک نوجوان نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کرکے جالوت کو قتل کیا، قرآن کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوجوان حضرت داؤد علیہ السلام تھے۔

طالوت کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنا بادشاہ بنایا، انہوں نے اپنی قوم کو لے کر شہر بیت المقدس پر حملہ کیا اور اس کو فتح کر کے اس کا نام مدینہ داؤد رکھا، پھر ان کے جانشین حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم وبارعب سلطنت کے بعد بنی اسرائیل دو حصوں میں تقسیم ہو کر باہم دست وگریباں ہوگئے، یہاں تک کہ ۵۶۹؁ق م میں بخت نصر نے یکے بعد دیگرے دو حملے کئے، جس میں اس نے ہیکل سلیمانی کو بنیاد سے ختم کردیا، جب وہ واپس جا رہا تھا تو شہر کا یہ عالم تھا کہ پورا شہر راکھ سے بھرا ہوا تھا، اور بچے ہوئے یہودی اس کے قیدی تھے، یہ یہودیوں کی پہلی تباہی تھی جس میں دیگر صحیفوں کے ساتھ توریت بھی غائب ہو گئی، اور تابوت سکینہ بھی غائب ہوگیا، جس کا سراغ آج تک نہ مل سکا۔

بخت نصر کے اس حملہ کے بعد پچاس برس تک یہ شہر ویران رہا، یہاں تک کہ بابل بن سالتی ایل نے جو حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے تھا، صہیونیت کی تحریک کا آغاز کیا، صیہون دراصل بیت المقدس میں ایک پہاڑی ہے، جس پر حضرت داؤد علیہ السلام نے جشن منایا تھا، اسی لئے یہودی اس کو مقدس سمجھتے ہیں، اس تحریک کا اصل مقصد کھوئی ہوئی ریاست کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔

۳۳۱؁ ق م کا زمانہ ہے، لگاتار یہودی سازشوں کے بعد بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے، ابھی مختصر ہی عرصہ گذر پاتا ہے کہ ان کو خبر ملتی ہے کہ ایک بادشاہ پے در پے فتوحات کے ساتھ بیت المقدس کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے، اب اس کو یہودیوں کی بزدلی کہیں یا عیاری کہ انہوں نے مقابلے کے بجائے اس بادشاہ کا استقبال کیا، یہ وہی بادشاہ ہے جس کو دنیا سکندر اعظم کے نام سے جانتی ہے، اس کی موت کے بعد یہ شہر یونانیوں کے قبضہ میں آگیا۔

اس کے بعد یہ شہر مختلف ادوار سے گذرتا رہا، یہاں تک کہ اﷲ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام اس شہر میں تشریف لاتے ہیں، اور یہودیوں کو بار بار اﷲ کی عبادت واطاعت کی دعوت دیتے ہیں ، لیکن ان کے مسلسل کفر وانکار کی وجہ سے ان کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے، اس واقعہ کے بعد سے لے کر ۲۲۸؁ء تک عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان جنگیں ہوتی رہتی ہیں، یہ زمانہ عیسائیوں کے لئے سخت ابتلاء وآزمائش کا ہوتا ہے، پھر عیسائیوں کو تائید غیبی حاصل ہوتی ہے، اور۲۳۶؁ء میں قیصر روم قسطنطین عیسائیت قبول کرلیتا ہے، اور بیت المقدس کو عیسائی ریاست میں شامل کرلیتا ہے، پھر اس کے بعد دو صدی تک یہ عیسائیوں کا مرکز رہتاہے، یہاں تک کہ ۶۲۸؁ء کے بعد تاریخ کا وہ زریں باب شروع ہوتا ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

بیت المقدس پر یہود وعیسائی دونوں اپنا حق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک وہ حق پر تھے وہی اس کے مستحق تھے، لیکن جب ان سے اﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانیاں سرزد ہوئیں، اوروہ اﷲ کے غضب کے مستحق ہوئے، تو اﷲ نے ان سے یہ نعمتیں چھین لیں، اور امت مسلمہ توحید ورسالت کی علمبرداری کی حقیقی وارث قرار پائی، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بعثت محمدی ﷺ دراصل حضرت ابراہیم واسمعیل، اسحق ویعقوب، داؤد وسلیمان اور موسی وعیسی علیہم السلام کی آخری کڑی ہے، لہٰذا امت مسلمہ ہی اس سرزمین کی اصل واارث اور وہی اس کی حقدار ہے، انہی تمام باتوں کے پیش نظر اس مبارک سرزمین پر جو صدیوں ں سے خون کا میدان بنی ہوئی تھی متبعین اسلام کا پرامن داخلہ ہوتا ہے، اور بغیر کسی مقابلہ کے یہ شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آجاتا ہے، اور اس کی چابیاں خلیفۂ دوم حضرت عمر ؓکے حوالے کی جاتی ہیں، اس طرح یہ شہر امن وامان کا گہوارہ بن جاتا ہے، اس فتح کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ فاتح قوم کے ساتھ مفتوح قوم بھی فتح کا جشن مناتی ہے۔

جس طرح مسلمانوں نے بیت المقدس کی پر امن فتح دیکھی، اسی طرح اس شہر پر ۵؍ جولائی ۱۰۹۵؁ء کا وہ سیاہ دن بھی آیا جب صلیبیوں نے ظلماً مسلمانوں سے اس شہر کو چھین لیا، اور نوے سال تک ظلم وبربریت کا وہ وحشت ناک مظاہرہ کیا کہ حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں کہ جو عیسائی اس حملہ کے لئے بیت لمقدس میں داخل ہوئے انہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔

اس کے بعد مسلمانوں اور صلیبیوں کے درمیان جنگیں اور جھڑپیں ہوتی رہیں، پھر بیت المقدس نے اپنی تاریخ میں وہ مبارک دن بھی دیکھا جب بروز جمعہ ۲۷؍ رجب ۵۸۲؁ھ مطابق ۱۳؍ اکتوبر ۱۱۸۷؁ء کو صلاح الدین ایوبی فاتح بن کر اس شہر میں داخل ہوتے ہیں، اس طرح بیت المقدس پھر ایک بار مسلمانوں کے قبضہ میں آجاتا ہے، لیکن صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، پھر جب ۱۹۱۷؁ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، تو برطانیہ بیت المقدس کو برٹش کنٹرول میں لے کر یہودیوں کے قبضہ میں دے دیتا ہے، رفتہ رفتہ یہودی پورے بیت المقدس پر قابض ہوجاتے ہیں، اور مسجد اقصی وقبۃ الصخرۃ دونوں یہودیوں کے تسلط میں چلا جاتا ہے، بالآخر ۱۹۸۰؁ء میں بیت المقدس کو حکومت اسرائیل کا دارالسلطنت قرار دیا جاتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت فلسطین میں یہودی %۸۰ ، فلسطینی ۱۸ % اور مسیحی %۲آباد ہیں، ایک زمانہ تھا جب بیت المقدس میں فلسطینیوں کی تعداد %۹۰ سے زیادہ تھی۔

مختصر یہ کہ عہد فاروقی سے لے کر آج تک کی اس طویل ترین مدت میں صلیبی قبضہ کے ۸۸ سال اور یہودی قبضہ کے ۶۵ سال نکال دئیے جائیں تو بقیہ پوری مدت بیت المقدس پر مسلمانوں ہی کی حکمرانی رہی، اس اعتبار سے بھی خطہ پر جتنا حق مسلمانوں کا ہے اور کسی کا نہیں، البتہ یہودیوں کا یہ ناجائز قبضہ رسول برحق کی جانب سے امت کے لئے وعدہ وبشارت ہے، اور ایک دن مسلمانوں کا غلبہ حتمی ویقینی ہے، جس سے خود یہودیوں کو بھی انکار نہیں ہے۔

جب اسرائیل کی سابق وزیر اعظم ’’گولڈا مئیر ‘‘ سے پوچھا گیا کہ کیا مسلمان یہودیوں پر پھر غالب آسکتے ہیں؟ تو اس نے جو جواب دیا اس سے مسلمانوں کو عبرت لینی چاہئے، اس نے کہا: کہ ہاں، لیکن اس وقت جب مسلمانوں کی تعداد فجر کی نماز میں بھی اتنی ہی ہونے لگے جتنی اس وقت جمعہ میں ہوتی ہے۔

اس وقت یہ سرزمین پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ: کاش! کوئی عمر فاروق ظاہر ہوتا اور ہمیں اس اسیری سے نجات دلاتا، کاش! کوئی صلاح الدین ایوبی آتا اور ہمیں اس قید ظلم وجور سے آزاد کردیتا،یا کاش! کم سے کم آج کے مسلم حکمرانوں میں کوئی سلطان عبد الحمید ہوتا جو مادی نقصان اور اقتدار سے محرومی تو گوارا کرلیتا، لیکن دینی حمیت اور ملی غیرت کا سودا نہ کرتا!!!
اس سلسلہ میں پوری دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان پر واجب وضروری ہے کہ اس مسئلہ کو ایک دینی واسلامی مسئلہ سمجھ کر کم از کم درج ذیل امور پر عمل کرنے کی کوشش کرے :
۱) اس مسئلہ کی حقیقت کو خود بھی سمجھیں، اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں۔
۲) اس سلسلہ میں نا امیدی کی جو فضا پھیل رہی ہے، اس کو ختم کرکے امید کی کرنوں روشن کریں۔
۳) اس مسئلہ کے جو بھی خلاف ہو ، اس کا ہمہ جہتی بائیکاٹ کیا جائے۔
۴) اﷲ سے خوب خوب دعا کی جائے۔
۵) خود اپنی اور اپنے معاشرہ کی اصلاح کی جائے۔
یہ پانچ مختصر نکات ہیں، اﷲ کی ذات سے امید ہے کہ اگر کوئی مسلمان کم ازکم ان نکات پر مکمل طور پر عمل کرے گا، تو روزِ قیامت وہ اس سلسلہ میں گرفت سے محفوظ رہے گا، اوران شاء اﷲ جلد از جلد وہ دن بھی آئے گا جب قبلۂ اول مسلمانوں کی تحویل میں ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

Muhammad Hammad Karimi
About the Author: Muhammad Hammad Karimi Read More Articles by Muhammad Hammad Karimi: 5 Articles with 3892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.