بات علم و فنون کی ہو یا مذہب و روحانیت کی یا چاہے
سیاست و معاشرت، ادب و صحافت، تہذیب و ثقافت،فن و سیاست،صنعت و معیشت کی،یا
کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کی بات ہی کیوں نہ ہوہر میدان میں قصور کی زرخیز
مٹی نے شہرہ آفاق ناموں کو جنم دیا ۔مگرجب میں نے اپنے بزرگوں کے ہمراہ اِس
شہرمیں آناشروع کیا تو اتنا چھوٹا تھا کہ بابا بلھے شاہ ،بابا کامل شاہ،پیر
جہانیاں جیسی برگزیدہ ہستیوں سے بھی نا واقف تھا،اور محمد علی ظہوری
قصوری،عبداﷲ عبدالقادر خویشگی‘ اقبال قیصر‘ اقبال بخاری‘ مقصود حسنی ، میڈم
نورجہاں ،بھولو پہلوان، گاما پہلوان، یوسف خان،ضیاء محی الدین، مصور آزر
روبی،قوال مہر علی اور شیر علی قوال،راجہ ٹوڈرمل سمیت ڈاکٹر معین قریشی‘
خورشید محمود قصوری جیسی قصور کی نامور شخصیات بھی میرے علم میں نہ تھی۔اور
نہ ہی میں یہاں کے فالودے، اندردسوں، بھلے پکوڑیوں، دہی قلچوں، مسالے دار
مچھلی جیسے لذیز ترین روایتی کھانوں اور اِس شہر کے تاریخی پس منظر سے مکمل
واقف تھا ،قصور کے لئے میرا پہلا اور آخری حوالہ صرف بابا نواز ش
علیؒ(مرحوم)تھے ،اِن روحانی ہستی سے ہمارے خاندان کا اپنائیت اور خلوص کا
گہرا رشتہ تھا۔یہاں پاکستان کے طول و عرض سے آئے عقیدت مندوں کو اِن کے علم
و عمل سے فیض یاب ہوتے دیکھتا رہتا،اِنکا دست ِ شفقت ومحبت میری ابتدائی
علمی اور عملی زندگی میں قدم قدم میرے سر پرشجر سایہ دار بن کر رہے۔ بابا
جیؒ جہان فانی سے رخصت کیا ہوئے ہم جیسوں کیلئے یہ شہرویران کر گئے۔مگر ایک
موڑ پر اِسی شہر میں رشتہ ازدواج میں بندھا اور یہاں سے تعلق مزید گہرا
ہوتاچلا گیا۔ازدواجی زندگی کے محدود دو ڈھائی سال کے عرصہ میں قصور شہر کے
دامن میں سمـٹے بڑے شہروں کی سی چمک دمک،رونقوں، رنگا رنگی، اور چھوٹے
شہروں والی بناوٹ کے بغیر سادگی،الفت کو قریب سے پرکھنے کا حقیقی موقع ملا۔
اﷲ کے امر کہیے کہ کو تاہیوں نے اِس نازک رشتے کوآگے بڑھنے نہ دیا۔ مگرقصور
کی مٹی میں وہ ملنساری وہ مٹھاس وہ چاہت، وہ محبت کچھ ایسی رچی بسی ہیں کہ
ایک بار اس پر قدم رکھنے والے کو اِس سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی
ہے ،اور یوں اِنہیں گلیوں بازاروں میں پروان چڑھتے اپنے آٹھ سالہ لخت جگر
محمد بن عاشرکے بہانے آج میں بابا بلھے شاہ کی نگری سے پہلے سے بھی زیادہ
ایسا مضبوط جڑ چکا ہوں کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ لاہور میرے دل میں رچا ہے
تو قصور آنکھوں میں بسا۔۔
مصروفیات و مجبوریوں اور مصلحتوں کی زنجیروں سے بچ بچا کر قصور جانے کا
خوشگوار ماحول استوار ہو جائے تو اِس کے سوا مجھے اور کیا چاہے۔تو کیسے
ممکن تھا کہ ایک تو پاکستان رائیٹرزونگ کے زیراہتمام اور دوسرا یہ قصور میں
منعقدہ تقریب کا دعوت نامہ میرے لئے باعثِ مسرت نہ ہوتا ۔ مذہبی، ثقافتی
اور روحانی روایات کا امین شہرقصور کی لازوال ادبی تاریخ بھی ہے جس میں
یہاں کی ادبی تنظیموں کا ادبی شخصیات کی آبیاری اور تربیت میں ناقابل
فراموش کردار رہا ۔مگر یہ پہلی مثال ہے کہ ایک دوسرے شہر کی ادبی تنظیم
قصور کی سرزمین پرپاکستان بھر سے اہل علم و دانش کو ایک پلیٹ فورم پراکٹھا
کر کے ادب کا ایک نئا چراغ روشن اورایک نئی تاریخ رقم کر رہی تھی۔ونگ کے
چیئرمین مرزا یسیٰن بیگ بھائی تقریب کی تیاریوں کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ
رابطے میں رہے،مختلف پہلوؤں میں مشورے بھی لئے،اُنہیں اہمیت دے کر عزت سے
بھی نوازا۔خیر ۔۔وقت کی برق رفتاری اُس دن کو لے آئی جسکا کئی ہفتوں سے
انتظار تھا ،دوست ندیم نے مغلپورہ سٹاپ پر ڈراپ کیا اور بذریعہ رکشہ دوستوں
سے طے شدہ وقت 8:30 بجے، طے شدہ مقام مسلم ٹاؤن سٹاپ پر آن پہنچا,الطاف
احمد چند لمحہ پہلے ہی پہنچے جبکہ زاہد حسن صاحب 8:00سے ہمارے منتظر
تھے،اسحاق جیلانی پچھلے بیس پچیس منٹس سے مسلسل سات منٹ میں پہنچے کا کہہ
کرمنظر سے غائب تھے۔ہمیں قصور پہنچانے والے افتخار صاحب سے سب ایک گھنٹے سے
رابطہ کرنے کی کوشش میں تھے مگر ماجال ہے کہ موصوف کا فون آٹو میسج پہ یہی
کہہ دیتا ’’اپنا بندوبست کر لو میں سو رہا ہو‘‘، زاہد حسن صاحب کا انتظار
کرنا ہمارے لئے ناقابل قبول تھا تو ہم تینوں نے لوکل ٹرانسپورٹ پر ہی سفر
جاری رکھنے میں غنیمت و عزت جانا۔جنرل ہسپتال تک ہی پہنچے تھے کہ اسحاق
جیلانی کے سات منٹ پورے ہوئے اور پُرشکوہ فون آیا کہ بھائی صاحب کہاں ہو؟
حسن اتفاق خان اور جیلانی صاحبان ایک ساتھ ہی مقررہ جگہ پر پہنچے ،تھوڑی سی
ہلکی پھلکی ادبی تکرار کے بعد ہم غیر ادبی حرکت کرتے ہوئے بس سے اُتر گئے ،جہاں
چند منٹوں میں دوست پہنچ گئے،گلے شکوے مکاتے گپ شپ کرتے سفر منزل کی جانب
گامزن ہوا، دورانِ سفر میرے بیٹے کا بھی ذکر ہوا،دوست جانتے تھے کہ میں
ملاقات کیلئے بے تاب، پُرامید اور پُرجوش ہوں ،وہ بھی دیدار کا اشتیاق
رکھتے تھے ۔مصافحت طے ہوئی اور ہم ڈسٹرکٹ کونسل ہال قصور پہنچ گئے جہاں
مہمانان کی آمد کا سلسلہ جوبن پر تھا۔ براؤن چیک دار ٹو پیس،سفید شرٹ اور
لال ٹائی میں ملبوس میں سامنے کھڑے مرزامحمد یسین بیگ بھائی کا ہستا
مسکراتا چہرہ یہ واضح پیغام دے رہاتھا کہ عوامی دلچسپی عروج پر ہے اوروہ
سازشیں دم توڑ گئیں ہیں جو چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک منظم انداز میں
برسرِپیکار تھیں کہ عوام عدمِ دلچسپی کا مظاہر ہ کر کے اس تقریب کو ناکام
بنائے ،افسوس کہ اِس میں اپنے قلم قبیلہ کے کچھ معتبر نام بھی شامل تھے۔
تقریب اپنے وقت سے چند منٹ پہلے شروع ہو گئی ،ہال کی کوئی نشست خالی نہ تھی
نئے آنے والوں نے ایک طرف کھڑے رہ کر پروگرام کا حصہ بننے کو واپس جانے پر
فوقیت دی۔ وہ دلجمعی سے اختتام تک ہال میں موجود رہے ۔
محفل کا آغاز ہوا جاتا تھا،فرحان اﷲ کوکب نے تلاوت قرآنِ پاک کی سعادت حاصل
کی اور خوش بخت سامعین کے روح و قلب کو سکون بخشا، میاں جمیل احمد نے اپنی
دل سوزآواز میں آپﷺ کے حضور نعت کا نذرانہ عقیدت بہ اوصافِ وشان ِ کمالی
پیش کر کے فضا کو پُرنور کر دیا۔مرزا یسین بیگ نے اپنی جداگانہ انداوبیان
کی آمیزش لئے پُرکشش نظامت سے شخصیات کو اُنکے مقام کے مطابق عزت و تکریم
سے نواز اور سبھی کو اپنا مداح کر لیا۔سٹیج پر مجیب الرحمن شامی، حافظ شفیق
الرحمن،رائے محمد خان ناصر، سجاد جہانیہ اوراقبال خاں منج بحثیت مہمانان
خصوصی جلوہ افروز تھے۔ جبکہ وائس چیئرمین ضلع کونسل ملک اعجاز احمد خان بھی
سٹیج کی رونق میں خوب اضافہ کر رہے تھے۔
مقررین جن میں بالترتیب زاہد حسن ادیب و شاعر،اقبال خاں منج،سنیئر کالم
نگار(نئی بات)،اسسٹنٹ پروفیسر رضیہ رحمان،سجاد جہانیہ، سینئر کالم
نگار،ڈائریکٹر ملتان آرٹ کونسل،ڈاکٹر اختر عظمیٰ ادیب،حافظ شفیق الرحمن،
نامور صحافی ،کالم نگار (نئی بات) اور مجیب الرحمن شامی، سینئرتجزیہ
نگار،چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان شامل تھے ،نے اپنے اظہار خیال میں ادب و
صحافت کے حوالے سے لکھاریوں کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی اور کامیاب تقریب
کے انعقاد پر مرزا یسیٰن بیگ، قاری عبداﷲ اور ملک شہباز کی کاوشوں کو سراہا
اور اُس امید کا بھی اظہار کیا ایسی تقاریب کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔
قلمی خدمات کے اعتراف میں منتخب لکھاریوں کو شیلڈز پیش کی گئیں۔راقم الحروف
کو حافظ شفیق الرٰحمن صاحب کے بدست مبارک ’’حافظ شفیق الرحمن ایوارڈ برائے
فروغ صحافت‘‘ مرزا یسیٰن بیگ بھائی کے اِن انمول الفاظ ’’محبتوں کے
سفیر‘‘سے نواز گیاجو میرے لئے اعزازت سے بڑھ کر اعزاز تھا ۔ تقریب میں ملک
محمد شہباز،انور زاہد، الطاف احمد،قاری عبداﷲ،مجید احمد جائی،
،عبدالعزیز،مہرسلطان محمود،ڈاکٹر تنویر، ظفر اقبال ظفر،ولی محمد عاظمی،ندیم
نظر،بشارت احمد، ڈاکٹر تنویر،الطاف چیمہ،شہزاد اسلم راجہ،ظفر اقبال ظفر،
ایم ایم علی،حافظ محمد زاہد،عقیل احمد خان، خان فہد خان، عبدالصمد مظفر
سمیت سبھی اپنے خوش مزاج بے غرض دوست موجود تھے جن سے ملاقات میرے لئے
ہمیشہ ہی مسرت کا ساماں ہوتی ہے۔
تقریب اختتام پذیر ہوچکی ،شرکاء خوشگوار لمحات کی حسین یادوں کو اپنے دامن
میں سمیٹے گھروں کا رُخ کرنے لگے۔،مگر ہمارا لاہور سے قصور تک سفر ابھی
جاری تھا بیٹے سے ملاقات کی تڑپ اور خلش بھی باقی تھی دورانِ تقریب بیٹے کے
ذمہ داران کا موصول نہ کئے گئے میرے فون کے جواب کا میں تاحال منتظر
تھا۔اسحاق جیلانی اپنے منظور نظر دوست ندیم نظر کے ہمراہ بلھے شاہؒ کے مزار
کو ہو لئے،راقم الحروف، افتخار خان،زاہد حسن صاحب اورالطاف احمد کیساتھ
علیحدہ سے بابا بلھے شاہؒ کی دربار پر حاضری کیلئے پہنچا،ہم نے ظہرین دربار
سے کے احاطے میں موجود مسجد میں ادا کی،اسحاق جیلانی یہاں بھی اپنا دامن
بجاتے ندیم نظر کے ہمراہ کسی کام کا کہہ کر رفو چکر ہوگئے۔عثمان کوٹ نئا
بازار میں شیخ آصف فولادہ کی دُکان سے فالودہ کا مزہ لیا گیا،افتخار کے
رابطہ پرلکھاری دوست شیخ عثمان یوسف قصوری بھی یہی تشریف لے آئے،جن کی
میزبانی کی پُرخلوص پُرزور پیشکش الطاف احمد کی فراغی دلی کے سامنے ناکام
رہی۔جیلانی دوست کا پُرشکوہ فون ’’ارے بھائی کہاں ہو؟ کیا کررہے ہو؟‘‘،وہی
جو آپ ہمیں چھوڑ کر کرنے چلے گئے۔۔۔اِس برجستہ جواب پرسبھی ایسا مسکرائے کہ
محفل کشت زعفران بن گئی۔اُنہیں تھوڑی دیر میں پہنچنے کا دلاسہ دیا اور
عثمان کے ہمراہ شہر کے مقبول عثمان کوٹ میں واقع نفیس فولادہ شاپ میں آ
پہنچے۔۔’’واہ دُکان ہے کہ شیش محل‘‘الطاف کا پہلی بارقصور آنا تھا اور وہ
ہر منظر ہرلمحے سے بہت محظوظ ہورہا تھا۔افتخار نے اپنی فیملی کیلئے ایک
گڑوی پارسل لی اور پھر زاہد حسن صاحب کی گھر کیلئے اندرسے لینے کی خواہش نے
عثمان نے لمبے قدم اُٹھائے، وہ موصوف آگے آگے اور ہم پیچھے پیچھے،شام قصور
کی دہلیز پر دستک دے رہی تھی،ہم کبھی گھڑی کو دیکھیں او ر کبھی تنگ گلیوں
میں دائیں بائیں ہوتے عثمان اور زاہد حسن صاحب کی رفتار کو۔آخر کارنویاں
گلیاں کے معروف شیخ غلام محی الدین طاہر سویٹ سے اندرسے لینے پہنچ گئے
۔جیلانی دوست کے پُرشکوہ فون کا سلسلہ جاری تھا’’ارے بھائی کدھر رہ
گئے‘‘ہمار نئا پلان سُن کر چونک گئے’’تو مجھے کیوں اپنے سے الگ کر
دیا؟‘‘میرے اِس جواب کہ آپ نے ہمیں چھوڑا ہم نے نہیں،وہ ماننے کو تیار نہیں
تھے بہرحال اُنکے پاس مزید انتظار کے سوا کوئی چارا نہ تھا۔اِن راستوں سے
گزرتے ہوئے میں نے کئی بار سوچا کہ ایک بارپھر ملاقات کیلئے فون کر لیا
جائے ،پھر ناجانے کیوں رُک سا گیا؟۔ہم گنجان ترین گلیوں میں لمحہ بھر کیلئے
تھوڑا سا کیا ہٹے کہ راستہ بھٹک گئے۔پھر فون پر گاڑی تک پہنچنا طے پایا مگر
چند گز کی دوری پر ہی الحافظ میموریز سویٹس کے دُکان پر اپنے قافلے کو رنگے
ہاتھوں پکڑ لیا جو عثمان کے قریبی عزیز شیخ طارق وحید صاحب کی پُرتکلف
مہمان نوازی کے نرغے میں تھے۔ہم بھی لذیز ترین گرما گرم گاجر حلوہ سے لطف
اندوز ہوئے ،سب معاملات سے فارغ ہو کر سبھی کو جیلانی دوست کی یاد ستانے
لگی ، جنہیں کیری ڈبے کے دروازے کھڑکیاں کھول کر تھکا ہوا چہرہ لیا آدھے
لیٹے آدھے بیٹھے آدھے سوئے آدھے جاگے کی سی کیفیت میں پایا گیا ۔شکوہ پھر
وہی کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘؟‘۔اُن کو سمجھانے کی تمام کاوشیں بے سود تھیں کہ
بھیا آپ بتائیے کہ ’’ہمیں کیوں چھوڑا؟‘‘،طنزو مزاح کے ایک دوسرے پر خوب
نشتر کسے گئے ،سڑک کنارے دوستوں کے ساتھ ایک یادرگار سیلفی بنائی،مہمان
نوازی پر عثمان قصوری سے اظہار تشکر کیساتھ واپسی کا فیصلہ کیا۔اِس خوشی
کیساتھ کہ قصور سے اپنے دوستوں عثمان قصوری، ملک شہباز، مہر سلطان
محمود،بلال ساجد،عبدالمتین، محمد اکمل تصور،عبدالولی ،عقیل خان اورملک
سلمان سمیت کئی دیگر کی دوستی نے رشتہ اور مضبوط رکردیا ہے یہ افسوس بھی
تھا کہ یہ سفر میرے لئے ادھورا ہی رہ گیا۔ ،شام گئے ابھی فون کرنا بھی
نامعقول تھا،بہت دیر ہوچکی تھی،ایسے ہی جیسے دوستوں سے رابطہ رکھنے میں،فون
کا جواب دینے میں ، پیغامات پڑھنے میں،تحریر لکھنے لکھانے میں،کوئی فیصلے
کرنے میں، پھر اُس پر عمل کرنے میں،میں اکثر دیر کردیتا ہوں ۔ منیر نیاز ی
نے یہ کلام شاید مجھ جیسوں کیلئے ہی ہے ۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں |