بیورو کریسی کے بارے میں تو سنا تھا کہ وہ بہت طاقتور
ہوتی ہے اور اس نے پاکستانی حکمرانوں کو اپنے مضبوط پنجوں میں کچھ اس طرح
جکڑ رکھاہے کہ وہ چاہنے کے باوجود انکے چنگل سے آزاد نہیں ہو پاتے ۔اس کی
وجہ شاید یہ ہے کہ حکمران پارٹیوں کے زیادہ تر لوگ میٹرک ٗ ایف اے یا اس سے
بھی کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں کچھ انگوٹھا چھاپ جعلی ڈگریاں لے کر پیسے کے
بل بوتے پر الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ کر وزارتیں حاصل کرلیتے ہیں ۔
بدقسمتی ہے کہ پاکستان کا صدر ایف اے پاس بھی رہ چکا ہے ۔ اس نے اپنے تجربے
کی بنا پر سب کو اپنے اشاروں پر ناچایا ۔ کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے
بیورو کریسی ان پر یقینی طور پر حاوی ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ سرکاری افسران نہ
صرف اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں بلکہ انہیں وقتا فوقتا ورلڈ ٹور کے ساتھ
ساتھ نت نئی تربیت بھی دلوائی جاتی ہے ۔لیکن جن سیاسی جماعتوں نے الیکشن
میں کامیابی کے بعد کاروبار مملکت چلانا ہے ۔ انہیں نہ تو قومی وسائل کاعلم
ہوتاہے اور نہ ہی مسائل کا ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جو قوم خربوزہ سونگھ
کے خریدتی ہے وہ ووٹ دیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہے ۔
پاکستان قوم کی لاپرواہی اور تغافلانہ پن سے فائدہ اٹھا کر ایسے نمائندے
منتخب ہوجاتے ہیں جن کو عوام کی حالت زار بہترکرنے کا خیال نہیں ہوتا بلکہ
وہ اپنا پیٹ ہی بھرنے اورالیکشن پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے چکر
میں لگ جاتے ہیں ۔ خودبھی لوٹتے ہیں اوراپنے حمایتی افراد کی لمبی چوڑی ٹیم
کو بھی مختلف سرکاری اداروں کے سربراہ بنا کر قومی وسائل لوٹنے کا موقع
فراہم کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سو دو افراد پر مشتمل ایک ٹولہ تشکیل
دے رکھا ہے۔ جیسے ہی پیپلز پارٹی برسراقتدار آتی ہے تو تمام سرکاری محکموں
پر پیپلز پارٹی کے جیالوں کو سوار کردیا جاتاہے ۔ اگر مسلم لیگ ن کامیاب
ہوتی ہے تو اس کی آستین میں دواڑ ھائی سو افراد چھپے بیٹھے ہیں جو تعلیم کے
اعتبار سے تو قابل فخر نہیں لیکن ان کی اصل قابلیت پارٹی اور اس کے سربراہ
سے وفادار ہوتی ہے ۔ وہ اچھے برے کا خیال رکھے بغیر ہروہ کام کرتے ہیں جس
کا فائدہ ان کی پارٹی یا قائد کو جاتا ہو ۔
....................
مخدوم سجاد حسین قریشی( شاہ محمود قریشی کے والد ) گورنر پنجاب رہے ہیں ۔
وہ حقیقت میں درویش صفت انسان تھے ۔ ان کے پاس کوئی بھی شخص کام کے لیے
جاتا وہ سفارش کرنے کی بجائے فورا ہاتھ اٹھا دیتے اور دعا کے بعد فرماتے اﷲ
کریسی ۔ سائل بہت حیران ہوتے کہ موصوف ٗگورنر کے منصب پر بیٹھنے کے باوجود
حکم نہیں دیتے لیکن ہر معاملہ اﷲ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو
غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے پاکستان میں بیورو کریسی کے بعد اﷲ کریسی متعارف
کروا دی ۔ جو ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جہاں
بھی ان کا ذکر خیر آتا ہے تو اﷲ کریسی کا ذکر بھی ضرور ہوتا ہے ۔
.........................
ایک نئی کریسی کی دریافت میں کر رہا ہوں اور یہ ہے" بیگم کریسی "۔بیگمات کے
بارے ڈاکٹر عارفہ صبح خان اپنی کتاب میں لکھتی ہیں ٗ بیگمات کے بے شمار
قسمیں ہیں ۔خوش مزاجی بیگم ٗ سڑیل بیگم ٗ موٹی بیگم ٗ چھوٹی بیگم ٗ لڑاکا
بیگم ٗ سریلی بیگم ٗ بڑبولی بیگم ٗ گھنی بیگم ٗمسینی بیگم ٗ فرماں برادر
بیگم ٗ نافرمان بیگم وغیرہ وغیرہ۔انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتا کہ اپنی
پسندکی بیگم کو ہی وہ اپنے گھر کی مالکن بنائے ۔ پاکستانی معاشرے میں
والدین جس کھونٹ باندھ دیتے ہیں اسی کھونٹ پر انسان پوری زندگی بندھا رہتا
ہے ۔ میرے مشاہدے میں کئی لوگ ایسے بھی آئے ہیں جن کو رات کے اندھیرے دیکھا
نہیں جاسکتا ۔انکے موتیوں جیسے چمکتے دانت ہی ان کی موجودگی کااحساس کرواتے
ہیں ۔ انہیں ایسی چاند جیسی بیگم ملتی ہے جو ہاتھ لگائے میلی ہوتی ہے ۔
شوہررب کا شکر اداکرنے کی بجائے اس ہیرے کو بھی مٹی میں رول دیتا ہے ۔ یہاں
مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے ۔ایک دن بیگم نے اپنے شوہر سے کہا جب آپ دفتر
جاتے ہیں تو مجھے اظہار محبتI miss u کرکے نہیں جاتے وہ سامنے والے مولوی
صاحب تو اپنی بیگم کو روزانہ I Love u کہہ کے گھر سے نکلتے ہیں ۔ شوہر نے
غصے سے جواب دیا دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے لیکن مولوی صاحب سے ڈر لگتا
ہے ۔ اسے کہتے ہیں پرائی تالی میں گھی زیادہ نظر آتا ہے ۔
ایک خوبصورت خاتون کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوگئی جس کو دیکھ کر بھی انسان
کو خوف آتا تھالیکن اس نیک سیرت خاتون نے اپنی پوری زندگی اسی لنگور کے
ساتھ کچھ اس طرح بسر کی کہ ہر دیکھنے والا شخص عش عش کراٹھا ۔ ایک دن میں
نے اس شادی کے بارے میں کھوج لگانے کی جستجو کی تو پتہ چلا کہ 1965کی پاک
بھارت جنگ میں لڑکی کا والد محاذ جنگ پر جارہے تھے اس نے جاتے ہوئے خیرات
سمجھ کر اپنی حور جیسی بیٹی اپنے لنگور جیسے بھانجے کے گلے باندھ دی ۔
وگرنہ دونوں میں کوئی جوڑ نہیں تھا۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ 45 سال تک وہ
حور اپنے لنگور شوہر کے ساتھ بندھی رہی بالاخر اسی گھر سے اس کا کحھ ای
انداز یت جنازہ اٹھا کہ خاندان کے لوگ اس لڑکی کے صبر اور وفاداری پر عش عش
کراٹھے ۔
میں 30 سال مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں بھی رہ چکا ہوں ۔ مسجد میں
نمازپڑھنے کی مجھے بچپن ہی سے عادت ہے ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ بہت سارے
نمازی اکھٹے ہوکر گلی نمبر 9 سے ہوکر مسجد پہنچے ۔ میں نے ایک نمازی سے اس
کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ گلی نمبر 9 میں ایک عیسائی رہتا ہے اس کی
بیوی بہت ہی خوبصورت ہے ۔ اس خوبصورت عورت کو دیکھنے کے لیے اکثر نوجوان
اور نمازی اسی گلی میں سے ہوکر گزر تے ہیں ۔ ایک دن میں نے بھی سوچا کہ چلو
ہم بھی دیکھ کر آئیں کہ جلوہ کیسا ہے ۔ حسن اتفاق سے وہ خوبصورت خاتون بھی
نمازسے چند منٹ پہلے گھر کے دروازے پر آکھڑی ہوتی ۔ شاید اسے لوگوں کی
دلچسپی کا احساس ہوگیا تھا ۔ جب میری نظر اس خاتون پر پڑی تو واقعی وہ لیلی
زبیری جیسی خوبصورت تھی ۔ اسے دیکھ کر میں ٹھٹھک کر رہ گیا اور مجبور ا
مجھے بھی اپنار استہ بدلنا پڑا ۔
بات ہورہی تھی بیگم کریسی کی ۔ بیگم تو میرے گھر میں پچھلے 39 سال سے
موجودگی ہے لیکن اس کی کریسی سے واسطہ مجھے اس وقت پڑا جب میں بنک آف پنجاب
سے ریٹائر ہوکر گھر تک محدود ہوگیا ۔ اس کے باوجودکہ بنک نے مجھے بیکار
سمجھ کر گھر بھیج دیاہے لیکن اس چلے ہوئے کارتوس کو بھی بیگم نے کارآمدبنا
لیا ہے ۔ خاندان میں ہونے والی غمی وخوشی کے موقع پر بیگم کو اس مقام تک لے
جانے اور واپس لانے کا فریضہ میرے سپرد کررکھا ہے ۔ پہلے ایک پوتے محمد
عمرکو سکول سے گھر لیکر آتا ہوں پھر نماز ظہر کے فورا بعد پوتی شرمین کو
سکول سے چھٹی ہو جاتی ہے ۔اس کو بحفاظت گھر لانے کی ذمہ داری بھی میری ہے
۔ابھی اس فکر سے نجات نہیں ملتی کہ بیگم کے ہاتھ سودے کی لمبی چوڑی لسٹ
ہوتی ہے جو مجھے تھما کر بازار جانے کا حکم دیتی ہیں۔ ابھی وہاں سے واپس
نہیں آتا تو پتہ چلتا ہے کوئی سسرالی مہمان کی آمد ہوچکی ہے اب دوبارہ
بازار جائیں اور ان کی تواضع کے لیے لوازمات لے کر آئیں۔ اگر مناسب خدمت نہ
کی تو ناک کٹ سکتی ہے ۔اپنی ناک بچانے کے لیے بیگم کا حکم مجھے ماننا
پڑتاہے ۔ ابھی دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد نماز عصرکی تیاری کررہا ہوتا
ہوں تو اطلاع ملتی ہے کہ پوتے اورپوتیوں کے ٹیویشن جانے کا وقت ہوتا
جارہاہے ۔ بیگم اپنی کڑک دار آواز میں حکم دیتی ہیں نماز پڑھنے کے بعد
سیدھے گھر آنا کسی دوست سے گپیں لگانے نہ بیٹھ جانا ۔ آپ نے بچوں کو ٹیویشن
چھوڑ کر آنا ہے ۔صبح سے شام ہوجاتی ہے کام کرتے کرتے لیکن بنک میں تو مہینے
بعد اچھی خاصی تنخواہ ملتی تھی لیکن یہاں سب کچھ مفت کرناپڑتا ہے بلکہ کبھی
کبھار نوک جھوک لڑائی کی شکل اختیار کرجاتی ہے ۔ دفتر میں جب ایسی صورت حال
کا سامناکرنا پڑتا تھاتو ہم چھٹی لے کر گھر بھاگ آتے تھے اب گھر سے بھاگ کر
کہاں جائیں مسجد کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
ایک دن بنک سے واپسی پر میں ٹی وی پر انڈین ڈرامہ دیکھ رہا تھا ۔اس ڈرامے
کی کہانی بھی ریٹائر ڈ پروفیسر کے گرد گھوم رہی تھی ۔ اس وقت مجھے
ریٹائرمنٹ کے مسائل سے آگاہی نہیں تھی۔ ریٹائرڈ پروفیسر گلے میں پھولوں کے
ہار ڈالے اپنے گھر آتا ہے اور خوشی خوشی بیگم کو اپنی اہمیت کا احساس
کرواتے ہوئے کہتاہے کہ اگر آج آپ کالج کے فنکشن میں موجود ہوتی تو دیکھتی
کہ وہاں مجھے کس قدر خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا ٗ میری خدمات کا ہر کوئی
اعتراف کررہا تھا ۔پرنسپل نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد
کالج میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا گا ٗجو مدتوں پورا نہیں ہوسکے گا ۔ جب
موصوف اپنی تعریفیں کررہے تھے تو بیگم نہایت خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھ رہی
تھی ۔جب اپنی داستان مکمل کرچکے تو بیگم بولی اگر تم اتنے ہی قابل ہوتے تو
کالج والے تمہیں ریٹائر کیوں کرتے ۔ چھوڑو یہ قصے اور کہانیاں ۔ تھیلا پکڑو
اور بازار سے جاکر سبزی لے کر آؤ اور ہاں دھنیا اور مرچیں مفت میں لانا نہ
بھولنا ۔ شوہر بے چارہ اپنا سا منہ لیکر تھیلا پکڑتاہے اور گھر سے نکل
جاتاہے ۔ اس لمحے میں نے سوچا کہ واقعی ریٹائرمنٹ کے بعد انسان صرف سبزی ہی
لانے کے قابل رہ جاتاہے ۔شاید اس لیے کہ وہ کوئی اور کام کرنے کے قابل نہیں
رہتا ۔
.............................
ایک دن شام ڈھلے شوہر گھر لوٹا تو بیوی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاآج
ایک شخص ہوا میں اڑ رہا تھا ۔ شوہر نے کہا بیگم لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا
نہیں ۔ وہ میں ہی تھا ۔ شوہرکی زبان سے بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ بیگم
بولی اچھا تب ہی وہ ٹیڑھا ٹیڑھا اڑ رہاتھا۔ یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا
ہے کہ بیگم کے نزدیک سب سے نکما ٗ نکھٹو اور نااہل شخص اس کا شوہر ہوتاہے
جبکہ دنیا کے نفیس ترین انسان اس کے بھائی ہوتے ہیں جبکہ ماں دنیاکی عظیم
ترین ہستی ہوتی ہے لیکن وہی عورت شوہر کی ماں کو ڈریکولا تصور کرتی ہے
۔دراصل ہم صبح دفتر کے لیے نکلتے ہیں تو بیگم چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے
الوداع کرتی ہے اس وقت یقینا اس کی آنکھوں میں چندآنسو بھی تیر ہوں گے
کیونکہ جدائی کے اظہار کے لیے آنسو ضروری ہوتے ہیں لیکن شام ڈھلے جب شوہر
گھر واپس آتے ہیں تو والہانہ استقبال کیا جاتاہے ۔گھر میں پہننے والے کپڑے
اور چپل پالش کیے ملتے ہیں ۔اگر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں تو ریموٹ فوری
طور پر ہاتھ میں تھما دیا جاتاہے تاکہ شوہر اپنی پسند کے چینل دیکھ سکیں
لیکن جب وہ صاحب ریٹائر ہوکر ہر وقت سر پر سوار ہوتے ہیں تو نہ جدائی کے
آنسو اور نہ ہی والہانہ استقبال ۔گھر میں صبح سے شام تک رہنے کی وجہ سے جو
تھوڑی بہت محبت ہوتی بھی ہے وہ بھی انجا م کو پہنچ جاتی ہے ۔ جس طرح مارشل
لاء کا ابتداء میں بہت خوف ہوتا ہے لیکن مسلسل سر پر سوار رہنے سے مارشل
لاء سے بھی لوگ مانوس ہوجاتے ہیں اسی طرح شوہر گھر کے سربراہ کی حیثیت
رکھتاہے ۔مسلسل گھر میں رہنے سے اس کی وقعت اور اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے-
پہلے ہرہر بات پر سب توجہ دیتے اور حکم مانتے ۔ ریٹائر منٹ کے بعد تین تین
مرتبہ آواز دینے سے بھی کوئی جواب نہیں ملتا ۔ اگر آواز آتی بھی ہے تو اس
میں چاہت سے زیادہ تلخی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے ۔"کیوں چیخ رہے ہو جی ۔ آ تو
رہی ہوں "۔ اسے کہتے ہیں بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے ۔
جوں جوں میری عمر بڑھتی جارہی ہے تو بائیک چلا تو لیتا ہوں لیکن اس کا
کنٹرول قدرے کم ہوچکا ہے ۔ میں نے کئی مرتبہ بیگم سے درخواست کی کہ وہ
بیٹوں کے ساتھ سفر کرلیا کریں لیکن ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ۔جب آپ رفیق
سفرہیں تو کسی اور کو تکلیف کیوں دوں ۔ بیگم کے اصرار پر خاموش ہوکر بائیک
ڈرائیو کرنے لگتا ہوں ۔ ایک اور بات یہ ہے بیگم پیچھے بیٹھ کر خاموش نہیں
رہتیں بلکہ مسلسل مجھے گائیڈ کرتی رہتی ہیں ۔ اب دائیں ٹرن لیں اب بائیں
جانب چل پڑیں ۔ اشارہ اب بند ہونے والا ہے ذرا تیز چلائیں تاکہ ہم اشارہ
کراس کرلیں۔سامنے سپیڈ بریکر آرہا ہے رفتار کم کرلیں۔جب بائیک کھڈے میں
لگتی ہے یا دیکھے بغیر سپیڈبریکر پر چڑھتی ہے تو بائیک بعد میں اچھلتی ہے
بیگم اس سے پہلے اچھل پڑتی ہے ۔ میں از راہ مذاق کہتا ہوں سپیڈ بریکر سے
اتنی بائیک نہیں اچھلتی جتنی بڑی چھلانگ آپ لگا دیتی ہیں۔ ایک دن ہم دونوں
سسرائیل جارہے تھے ۔ مال روڈ کا اشارہ بند ہونے والا تھاکہ بیگم کا حکم ہوا
کہ جلدی سے کراس کرلیں جیسے ہی میں حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سڑک کے درمیان
میں پہنچا تو دوسری جانب سے میرے ہی جیسا ایک تیزرفتار بائیک چلاتا ہوا
ہماری بائیک سے آٹکرایا ۔ اﷲ کا شکر ہے میں تو بچ گیا لیکن بیگم گر پڑی اور
انہیں ٹخنے پر چوٹ بھی آئی ۔ ہوش سنبھالتے ہی مجھ پر برس پڑیں ۔آپ کو
موٹرسائیکل چلانی نہیں آتی ۔ میں نے کہا 35 سال سے بائیک چلا رہا ہے اب آپ
یہ کہہ رہی ہیں ۔
یاد رہے کہ شادی کے چند دن بعد ہم سائیکل پر سوار دونوں میاں بیوی ایک دعوت
پر جارہے تھے ۔ راستے میں گندا پانی پھیلا ہوا تھا۔ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے
تو سائیکل کنٹرول کھو بیٹھی اور ہم دونوں کیچڑ میں آگر ے ۔ہم دونوں کے نئے
کپڑے خراب ہوگئے ۔ بہت پریشانی ہوئی اس وقت تو بیگم ابھی نئی نئی تھی اس
لیے اس نے لمبی چوڑی تقریر نہیں جھاڑی اور خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ کسی
کادروازہ کھٹکٹھایا اور پانی لے کرکپڑوں سے کیچڑ الگ کیا اور دعوت والے گھر
جاپہنچے ۔اس وقت سائیکل ہمارے پاس تھی اور 39 سال بعد موٹرسائیکل ۔ پہلے وہ
خاموش تھی ٗ 35 سال بعد غصے سے کہنی لگی آپ کو موٹرسائیکل بھی چلانی نہیں
آتی ۔ جب تک بیگم کے ٹخنے سے سوجن ختم نہیں ہوئی ۔روزانہ صبح و شام ایک ہی
قسم کی ظالمانہ تقریر میرے خلاف نشر ہوا کرتی تھی ۔جب بھی انہیں کہیں جانا
ہوتا ہے تو اصرارکرکے مجھے ہی اپنے ساتھ لے کر جاتی ہے ۔ یہ ان کا مجھ پر
اور میری ڈرائیونگ پر اندھا اعتماد تھا۔جس پرمیں انکا شکر گزار ہوں۔
کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ جب بچے جوان ہوتے ہیں توبچے باپ کی قربانیوں کو بھول
جاتے ہیں اور سارے کے سارے ماں کے ہوجاتے ہیں ۔ ریٹائر منٹ سے پہلے ایک
بزرگ سے ملاقات ہوئی جو اپنی اولاد کی ان حرکتوں سے سخت نالاں پارک میں
بیٹھے بڑبڑا رہے تھے۔میں بھی چلتا چلتا تھک گیاتو انکے ساتھ جابیٹھا ٗ
انہوں نے بتایا کہ ساری زندگی محنت مزدوری کرکے بچوں کو لکھایا پڑھایا۔ اس
وقت ایک بیٹا امریکہ اور دوسرا لندن میں بہت اچھی جاب کررہے ہیں۔وہ جب بھی
کال کرتے ہیں تو میں اٹنڈکرتا ہوں۔ابھی میں ان سے بات شروع کرنے ہی لگتا
ہوں کہ وہ کہہ دیتے ہیں ابو جی امی سے بات کروا دیں۔ پھر امی سے کئی کئی
گھنٹے باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ میں اپنی بیوی کی شکل دیکھتا رہتا ہوں ۔ میں
نے کہا آپ محسوس نہ کیا کریں زمانے کا یہی حال ہے ۔ یہ کہہ کر میں نے ایک
رکشہ روکااوراس میں انہیں بیٹھ کر گھر جانے کے لیے کہا ۔ بزرگ بیٹھنے سے
پہلے رکشے کے پیچھے گئے جہاں لکھا تھا یہ سب میری ماں کی دعاؤں کانتیجہ ہے
۔ یہ پڑھتے ہی بزرگ غصے میں لال پیلے ہوگئے اور کہنے لگے میں ہر گز اس رکشے
پر سفر نہیں کروں گا ۔یہ خبیث بھی ماں کا دیوانہ ہے اور باپ کادشمن ۔اس نے
غصے کے عالم میں کہا سب مائیں بچوں کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ صرف وہ ہی
انہیں پیار کرتی ہیں باپ تو ہے ہی ظالم ۔ جو ان کی ہر بات کو رد کردیتا ہے۔
وقت گزر تا رہا اب جبکہ میں بھی ریٹائر ہوکر گھر تک محدود ہوچکا ہوں تو
میرے دونوں بیٹوں کی کال میرے ہی موبائل پر آتی ہے ۔میں ہیلو کہہ کر خیریت
دریافت کرنے لگتا ہوں تو دوسری جانب سے تقاضا ہونے لگتاہے کہ امی سے بات
کروا دیں ۔ پھر کئی کئی گھنٹے امی جان اپنے لخت جگرز سے گفتگو کرتی ہیں ۔اس
لمحے مجھے بھی وہ بزرگ یاد آتے ہیں جو اس صورت حال سے سخت پریشان تھے۔باپ
تپتی دھوپ میں کھڑا ہوکر مزدوری کرتا ہے پھر شام ڈھلے تھکا ماندہ گھر لوٹتا
ہے ۔بیوی اور بچوں کی جائز اورناجائز خواہشیں پوری کرتا ہے ۔جب بچوں کی
توجہ واپس لینے کی باری آتی ہے توسب باپ کو اکیلا چھوڑ کر ماں کے ساتھ
جاکھڑے ہوتے ہیں اور باپ تنہا بیماریوں کے تھپڑے کھانے کے لیے رہ جاتا ہے ۔
.......................
کہاجاتا ہے کہ عورت صرف ایک مرتبہ روتی ہے وہ بھی جب وہ والدین کاگھر
چھوڑتی ہے لیکن مرد پوری عمر نہ صرف روتا ہے بلکہ فریاد بھی کرتا ہے لیکن
اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ابتدائی طور پر مرد جارح اور عورت
مظلوم ہوتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں اولاد جوان ہونے لگتی
ہے تو عورت ہٹلر اور مرد بھیگی بلی بن جاتاہے ۔ جاویدپاشا ایک مضمون میں
لکھتے ہیں کہ انسان ہمیشہ بکری بنا رہتا ہے کبھی افسر کے سامنے تو کبھی
بیوی کے روبرو ۔کبھی اولاد کے سامنے تو کبھی پڑوسن کے سامنے ۔ وہ اپنی مرضی
سے جی بھی نہیں سکتا ۔ بچپن میں ماں باپ سے ڈرتا ہے ٗ سکول میں استاد سے
خوفزدہ ہوتا ہے ۔بڑھاپے میں آخرت کا خوف پریشان کردیتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد
اجمل نیازی فرماتے ہیں کہ بڑھاپے میں بیوی نرس بن جاتی ہے ۔ اس میں کچھ
تبدیلی کی ضرورت ہے کہ بڑھاپے میں بیوی ہیڈمسٹریس بن جاتی ہے ۔جتنی بھی
ظالم بیوی کیوں نہ ہو۔گزرا اس کے بغیر پھر بھی نہیں ہوتا ۔
میں بنک آف پنجاب میں 20 سال ملازمت کرتارہا ہوں ۔وہاں ایک بہت ہی نفیس
جنرل منیجر ہوا کرتے تھے۔ انتہائی ملنسار ہونے کے باوجودسٹاف پر ان کا بہت
رعب دبدبہ تھا۔ جب بھی ان کی بیگم کا فون آتا تو وہ یکدم کھڑے ہوجاتے اور
ہاتھ کے اشارے سے پہلے سیلوٹ مارتے پھر ہیلو کہتے ۔مجھے ان کے اس انداز
گفتگو سے بہت حیرت ہوئی ۔ ایک دن انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا ۔ ان کا گھر
پاکستان سٹاف کالج کے اندر آفیسر سٹاف کالونی میں تھا ۔ میں وقت مقررہ پر
پہنچ گیااور دروازے پر لگی ہوئی گھنٹی بجائی ۔ کچھ دیر بعدآہستگی سے دروازہ
کھولا اوروہ دبے پاؤں چپکے سے باہر تشریف لائے اور مجھے انگلی کو ہونٹوں پر
رکھ کراشارہ کیاکہ گھر میں آپ کی آواز نہیں نکلنی چاہیئے بیگم صاحبہ گھر پر
ہیں ۔میں نے کہا ٹھیک ہے سر۔ میں کوئی پندرہ بیس منٹ ان کے گھر موجود رہا
مجھے کسی انسان کی آواز سنائی نہیں بلکہ ایک سکوت طاری تھا ۔وہ دبے پاؤں
میرے لیے کولڈ ڈرنک لے کرآئے اور نہایت دھیمی آوازمیں وہ کام سمجھایا جس کے
لیے مجھے انہوں نے بلایا تھا۔ایک دن انہوں نے مجھے اپنے آفس بلایا اور
پوچھا کیا آپ شام کو میرے ساتھ فرنیچر مارکیٹ چل سکتے ہیں؟ وہاں سے کچھ
فرنیچر خریدنا ہے ۔ میں نے کہا ضرور سر میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔ بنک سے
چھٹی کرکے ہم ایک خوبصورت گاڑی میں بیٹھ کر اچھرہ کے قریب فرنیچر مارکیٹ
میں جا پہنچے ۔ فرنیچر کو پسند کرتے کرتے رات ہوگئی ۔ واپسی پر مجھے نہایت
شفقت سے کہتے ۔ تم اتنا لیٹ ہوگئے ہو تمہاری بیوی تمہیں مارتی تو نہیں ۔
میں نے جواب دیا سر ہماری بیویاں تو خود ہم سے خوفزدہ رہتی ہیں کہ کہیں ان
سے کوئی غلطی نہ ہوجائے اور انہیں ڈانٹ پڑ جائے ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان
کی بیگم پاکستان سٹاف کالج میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھی اور جو عورت
بڑے عہدے پرفائز ہوتی ہے اس کا رعب دبدبہ بھی اتناہی ہوتاہے ۔اسے کہتے ہیں
بیگم کریسی ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جتنے بھی سینئر افسران موجود ہیں
یا ریٹائر ہوچکے ہیں وہ حکمرانی نہیں کرتے بلکہ ان کے گھروں میں بیگم کریسی
راج کرتی ہے ۔
میں جب بھی اپنے گھر کی بالکونی میں دنیا کی رونقیں دیکھنے کے لیے بیٹھتا
ہوں تو زیادہ تر بائیک پر بیگمات اپنے شوہروں کے ساتھ کبھی ادھر توکبھی
ادھر جاتی دکھائی دیتی ہیں بہت کم لوگ ہیں جو اکیلے کہیں جارہے ہوں ۔وگرنہ
ہر گھوڑے کی لگام پیچھے بیٹھی ہوئی بیگم نے پکڑی ہوتی ہے ۔ سردی ہو گرمی ہو
ٗ رات ہو یا دن ہو ٗبارش کا موسم ہو ۔بیگم کریسی کے ہی وارے نیارے ہیں ۔
بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں اور میڈیاکی یلغار نے ماحول کو یکسر تبدیل کردیا
ہے ۔پہلے مرد حاکم تھا اب بیگم حکمران ہے ۔ جس کے ہاتھ میں گھر کی باگ ڈور
اور بچوں کی لگامیں ہوتی ہیں ۔اس کی بات قانون کا درجہ رکھتی ہے ۔ یہی
حقیقی معنوں میں بیگم کریسی ہے ۔ جس کو کوئی شریف آدمی چیلنج نہیں کرسکتا ۔
|