ایک عرصہ اس راز کو میں نے سینے میں دفن رکھا کہ کہیں مجھ
سے کچھ غلط نہ ہو جائے۔ آج اچانک ذہن میں یہ خیال کودا کہ نہیں پگلے اس کا
سینے میں دفن رکھنا درست نہیں بل کہ اس کے کہہ دینے سے میرے آقا کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی حقانیت سامنے آئے گی کہ وہ سچ ہی کہتے ہیں سچ کے سوا کچھ
نہیں کہتے۔ جس کا میں مولا اس کا علی مولا۔
فتح خیبر کے لیے انہوں نے امام علی علیہ السلام کو بلایا تھا اور وہ تشریف
لے آئے۔ ہاں حیرت اس بات پر ہے کہ وہ معمولی نہیں‘ معمولی ترین کے بلانے پر
بھی تشریف لے آتے ہیں۔ بلاشبہ بڑوں کا ظرف بھی بڑا ہوتا ہے اور ان کی
عطائیں محدود نہیں ہیں۔
میں جب ہسپتال سے واپس گھر لایا گیا تو اپنے حواس میں نہیں تھا۔ مجھے
چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ میرے پاس رضیہ‘ میری بیوی اور میری بیٹی ارحا
پریشان بیٹھے ہوئے تھیں۔ اللہ کے حضور میری صحت اور زندگی کے لیے دعائیں
مانگ رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں لیٹے لیٹے اٹھ کر چارپائی سے نیچے
پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ میں نے انہیں مخاطب کرکے کہا ڈرنا نہیں۔ پھر میں نے
تین بار کہا: یا علی ادرقنی فی سبیل اللہ اور پھر تیزی سے دروازے کی طرف
بڑھا اور دروازے کے دونوں پٹ پوری طرح کھول دیئے۔ ان سے کہا آپ تشریف لے
آئے ہیں۔ پھر دونوں ماں بیٹی نے دروازے سے آتی ہوئی مہک محسوس کی۔ اس مہک
نے پورے کمرے کو معطر کر دیا تاہم اس مہک نے ایک ہالے کی صورت میں میرے گرد
چکر لگایا اور جس طرح سے کمرے میں داخل ہوئی تھی اسی طرح دروازے سے باہر
نکل گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ میں آرام سے چارپائی پر لیٹ گیا۔ گہری اور خراٹے بھری
نیند اس طرح سے طاری ہوئی کہ ہائے ہائے کی آوازیں یکسر بند ہو گئیں۔ وہ دیر
گئے تک میرے پاس بیٹھی رہیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ میں بیمار نہیں ہوں۔ ان کا
کہنا ہے کہ وہ اس مہک کو تادیر محسوس کرتی رہیں۔ ان کے نزدیک ایسی مہک
انہوں نے زندگی بھر نہیں محسوس کی۔ |