رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیوں کامختصراحوال

شادی آسان کروتحریک کاسفرجاری ہے۔اس تحریک کوچلانے کامقصدعوام الناس کویہ شعوراورآگاہی دلانا ہے اورانہیں اس بات پرقائل کرنے کی کوشش کرناہے کہ وہ شادیوں میں فضول رسومات اورغیرضروری اخراجات سے اجتناب کریں۔فریقین ایک دوسرے سے اس طرح کے بے جامطالبات بھی نہ کریں جس سے کسی بھی فریق کومعمولی سی بھی پریشانی ہو۔کوئی ایسامطالبہ نہ کیاجائے جس کے بغیرشادی کرنے میں کوئی رکاوٹ پیدانہ ہوتی ہو۔شادیاں رسم ورواج کے مطابق نہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں۔شادیوں کے سلسلے میں بہت سے معاملات اوررسومات ایسی آگئی ہیں جن معاملات اوررسومات کااسلامی تعلیمات اوراسلامی شادیوں سے دوردورتک کابھی کوئی واسطہ نہیں۔شادیوں میں کیاضروری ہے اورکیاغیرضروری ہے۔ نفوس قدسیہ کی شادیاں کیسے ہوئیں ۔ شادی آسان کروتحریک کی طرف سے مضامین لکھ کر، فیس بک پیج ،واٹس ایپ اوردیگرذرائع سے عوام الناس کوآگاہی اورشعوردلانے کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ اس تحریر میں یہ بتایا جارہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیاں کیسے ہوئیں۔

کتاب ازواج الانبیاء کے صفحہ نمبراکیس پرلکھاہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے ہوئی۔مکہ کے سرداران اور بڑے بڑے رئیس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے شادی سے خواہش مندتھے۔مگرانہوں نے سب کوانکارکردیا۔لیکن حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انہیں جوخوبیاں نظرآئیں ان کی وجہ سے ان کارخ اس طرف ہوگیا۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے اپنی ایک سہیلی نفیسہ کواپنے دل کی بات بتادی۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے لیے رشتہ کے بارے میں بات کی اورعرض کی۔ اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کوشادی سے کیاچیزمانع ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایامیرے پاس شادی کے لیے کچھ نہیں ۔نفیسہ نے عرض کی ۔اگرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوکفایت ہوجائے اورخوبصورتی، مال،شرافت اورکفائت کی طرف دعوت ملے توکیاحامی نہیں بھروگے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاوہ کون ہے ۔نفیسہ نے عرض کی خدیجہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایایہ میرے ساتھ کیسے ہوسکتاہے ۔انہوں نے عرض کی یہ میرے ذمہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاٹھیک ہے میں تیارہوں۔نفیسہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے پاس اپنی مہم میں کامیابی کی خبرلے کرلوٹیں اوربتایا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شادی کے لیے تیارہیں ۔توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے اپنے چچاعمروبن اسدکوپیغام بھیجاکہ وہ شادی کرادیں تووہ آگئے۔اورحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آل عبدالمطلب کولے کرآئے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچاحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اورحضرت ابوطالب بھی تھے۔ان کااستقبال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے چچااورچچازادبھائی ورقہ بن نوفل نے کیااورحضرت ابوطالب نے خطبہ پڑھا۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ طاہرہ سے شادی کرلی اورحق مہرمیں بیس جواں اونٹ دیئے جنہیں ذبح کرکے لوگوں کوکھلادیاگیا۔کتاب سیرت مصطفی کے صفحہ ۳۶ پرلکھا ہے کہ حضرت ابوطالب نے نکاح کاخطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میرابھتیجا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ شخص ہے جس کے ساتھ میری قرابت اورقربت ومحبت کوتم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔وہ خدیجہ بنت خویلدسے نکاح کرتاہے اورمیرے مال میں سے بیس اونٹ مہرمقررکرتاہے اوراس کامستقبل بہت ہی تابناک ،عظیم الشان اورجلیل القدرہے۔جب ابوطالب یہ ولولہ انگیزخطبہ ختم کرچکے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے چچازادبھائی ورقہ بن نوفل نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ بے شک ہم لوگوں نے نہایت ہی رغبت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ ملنے اوررشتہ میں شامل ہونے کوپسندکیا۔لہذاایسے قریش! تم گواہ رہوکہ خدیجہ بنت خویلدکومیں نے محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں دیاچارسومثقال مہرکے بدلے۔کتاب ازواج الانبیاء کے صفحہ ۷۴ پرہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے منقول ہے کہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکاانتقال ہوگیا توحضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اورعرض کیا یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیاآپ نکاح کرناچاہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکس سے ؟ انہوں نے عرض کیایارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ چاہیں توکسی باکرہ سے شادی کرلیں اورچاہیں توکسی بیوہ سے نکاح کرلیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاباکرہ کون لڑکی ہے اوربیوہ کون ہے۔انہوں نے عرض کیاباکرہ لڑکی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب خلیل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ ہے اوراگرہ بیوہ سے شادی کرناچاہیں تووہ سودہ بنت زمعہ ہے جوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان بھی لائی ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروکاربھی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاان سے میراتذکرہ کرو۔حضرت خولہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں میں نے جاکرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہاسے اس کاتذکرہ کیاتوانہوں نے اس پیغام کوقبول کرلیا اورنکاح کے لیے رضامندہوگئیں۔وہ فرماتی ہیں اس کے بعدمیں حضرت سودہ رضی اللہ عنہاکے پاس گئی۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہاکے بوڑھے اورضعیف والد نے حضرت خولہ رضی اللہ عنہاکودیکھ کرپوچھا تم کون ہو۔جب انہوں نے اپناتعارف کراتے ہوئے کہاکہ میں حکیم کی بیٹی خولہ ہوں ۔توانہوں نے بڑی اپنایئت کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے آنے کاسبب پوچھاتوحضرت خولہ نے عرض کیا۔حضرت محمدبن عبداللہ بن عبدالمطلب (حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سودہ سے نکاح کاارادہ رکھتے ہیں ۔حضرت سودہ کے والدنے کہاوہ توبڑے اچھے آدمی ہیں ۔تم نے اپنی سہیلی (سودہ) سے پوچھا وہ کیاکہتی ہے میں نے عرض کیااسے یہ رشتہ پسندہے انہوں نے کہا جاکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہوکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آیئے۔حضرت خولہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ پھر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہاکانکاح کردیا۔کتاب خاندان رسول کے صفحہ ۷۶۲ پرلکھا ہواہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہاکے کہنے پرام الموء منین حضرت سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کاپیغام بھیجاجسے قبول کرلیاگیا۔اوریوں حضرت سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا چارسودرہم مہرکے ساتھ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آگئیں ۔ کتاب ازواج الانبیاء کے صفحہ ۶۵ پر درج ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوام الموء منین کالقب انہیں ا س وقت حاصل ہوا جب وحی الٰہی کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وفات کے بعدان سے نکاح کیا۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام الموء منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تومجھے خواب میں تین رات تک دکھلائی گئی۔میرے پاس ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں تجھے لایااوریہ کہتا کہ یہ آپ کی زوجہ ہے اور میں تیرے چہرے سے پردہ ہٹاتاتوہ تم عائشہ تھیں ۔جب مناسب وقت آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اورحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عقد کرلیااورچارسو درہم مقررفرمایا ۔اورحضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کواس رشتہ سے خوش نصیبی حاصل ہوئی اورانہیں بہترین چیزحاصل ہوگئی۔ہجرت کے دوسرے سال رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی بدرمیں مددفرمائی ،مدینہ کی گلیوں اورمضافات میں اس عظیم نصرت کی خوشی دوڑ گئی اورشوال کے مہینے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاوالدہ کے گھرسے اپنے بیت زوجیت میں منتقل ہوئیں جونبوت کاگھراوروحی اترنے کاگھرتھا۔کتاب خاندان رسول کے صفحہ ۵۷۲ پرہے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی صحت قدرے بہترہوئی توحضرت سیّدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امانت کولے جائیں ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں مہرادانہیں کرسکتا۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوقرض دیا جس سے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہاکاحق مہراداکیااوریوں آپ رضی اللہ عنہارخصت ہوکرحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرآگئیں۔کتاب ازواج الانبیاء کے صفحہ ۱۹ پرہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے بیوہ ہونے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پرتعزیت کرنے گئے اوراپنی بیٹی سے نکاح کی پیش کش کردی ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس بات پرغورکروں گا۔کچھ دن کے بعدجواب دیا کہ وہ ان دنوں شادی کاارادہ نہیں رکھتے ، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے بھی پیش کش کی ادھرسے بھی کوئی جواب نہ ملا تورسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے حال کاشکوہ کیا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حفصہ رضی اللہ عنہاسے وہ شخص شادی کرے گا جوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بہترہے اور اس عورت سے حضرت عثمان شادی کرے گاجوحفصہ رضی اللہ عنہ سے بہترہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین ھجری میں غزوہ احدسے پہلے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کیااورچارسودرہم مقررفرمایا۔کتاب ازواج الانبیاء کے صفحہ ایک سودس پرہے کہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہرحضرت عبداللہ بن حجش غزوہ احدمیں وہ شہیدہوگئے توتین ہجری میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا لیکن دویاتین ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں رہنے کے بعدانتقال کرگئیں۔کتاب خاندان رسول کے صفحہ تین سودس پرہے کہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہاکاحق مہر ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی مقررفرمایا۔اسی کتاب خاندان رسول کے صفحہ تین سوایک پرہے کہ ام الموئمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا شوال چارہجری کوحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کے بعدحرم نبوی میں داخل ہوئیں ۔حضرتط ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق مہرکے متعلق فرمایامیں نے جوکچھ فلاں بیوی کودیاوہ تمہیں بھی دوں گاام الموئمنین حضرت ام سلمہ کے بیٹے نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کواس حق مہرکے بارے میں بتایا کہ دومٹکے تھے جن سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتی تھیں ۔ایک چکی اورایک چمڑے کاتکیہ تھا جس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی تھی۔ام الموء منین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح کی رودادکتاب ازواج الانبیاء کے صفحہ ۶۵۱ پریوں لکھی ہے کہ خطبہ دینے کے بعدنجاشی نے کہا کہ میں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادومطالبہ کوقبول کیااورمیں اس کامہرچارسودینارمقررکرتاہوں پھراس نے وہ چارسودیناراسی وقت مجلس میں لوگوں کے سامنے رکھ دیے ۔اس کے بعدحضرت خالدبن سعیدرضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایامیں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کوقبول کیا اورمیں ام حبیبہ کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کراتاہو ں ۔اس کے بعدبادشاہ نے دینارحضرت خالدرضی اللہ عنہ کے حوالے کردیے۔کتاب خاندان رسول کے صفحہ ۵۲۳ پر ہے کہ ام الموئمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت جویریہ بنت الحارث کے نکاح کی خبرآناً فاناً سارے شہرمیں پھیل گئی ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیاکہ بنی مصطلق کے جتنے بھی قیدی ہیں انہیں آزادکردیاجائے۔جوبنی مصطلق کے ساتھ جنگ میں قیدی بنالیے گئے تھے۔ لشکراسلام کوفتح ہوئی تھی۔ازواج الانبیاء کے صفحہ ۵۶۱پرہے کہ ابن ہشام فرماتے ہیں کہ انہیں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت قیس بن ثابت سے خریدکرآزادکیااورپھرچارسودرہم مہرمقررکیااورنکاح فرمایا۔کتاب خاندان رسول کے صفحہ ۳۳۳ پرہے کہ روایات میں آتاہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام الموئمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکے قبول اسلام کے بعدآپ رضی اللہ عنہاسے نکاح کیااورآزادی کوآپ رضی اللہ عنہ کاحق مہرقراردیا۔آپ رضی اللہ عنہاخیبرکی فتوحات میں قیدی بنائی گئیں تھیں۔کتاب سیرت مصطفی کے صفحہ ۳۳۴پرہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہاکاپہلے نام برہ تھا لیکن حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کانام بدل کرمیمونہ (برکت دہندہ ) رکھ دیا۔جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن ساتھ ہجری میں عمرۃ القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تویہ بیوہ ہوچکی تھیں ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کی اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔کتاب خاندان رسول کے صفحہ ۹۱۳پرلکھا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کاایساولیمہ نہیں کیاجیساام الموئمنین حضرت سیّدہ زینب بنت حجش کاکیااوران کاولیمہ ایک بکری سے کیااوراس کاگوشت لوگوں کوکھلایا۔کتاب ازواج الانبیاء کے صفحہ ۶۷۱پرہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو(نکاح کے بعد) تیارکرکے رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دوسرے دن)فرمایاکہ تم میں سے جس کے پاس بھی کھانے پینے کوکچھ ہے وہ دسترخوان پرلاکررکھ دے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی پنیرلے کرآیا ،کوئی کھجوریں لایا،کوئی گھی وغیرہ لایا ۔ایک حلوہ ساتیارکیاگیا ۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاولیمہ تھا۔کتاب اسلامی شادی کے صفحہ ۷۳۲پرہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااپنے ولیمہ کی بابت فرماتی ہیں کہ نہ اونٹ ذبح ہوانہ بکری ،سعدبن عبادہ کے گھرسے دودھ کاایک پیالہ آیا تھا بس وہی ولیمہ تھا۔
یہ تحریرنہایت ہی اختصارسے لکھی گئی ہے۔ شادی بیاہ میں چونکہ نکاح، حق مہراورولیمہ ضروری ہوتے ہیں اس لیے سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیوں کے احوال میں سے وہ احوال لکھے گئے ہیں جن میں ان میں سے کسی بھی چیزکاذکرموجودہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے زیادہ حق مہرحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکادیاجوبیس اونٹ ہیں۔ جب کہ ایک زوجہ کی قیدسے رہائی ہی حق مہرقرارپائی۔جب کہ دیگرازواج مطہرات کاحق مہرچارسودرہم لکھاگیا ہے ۔ ایک مقامی جیولرشاپ سے چارسودرہم کوچاندی میں تبدیل کرنے کوکہا توانہوں نے بتایا کہ چھتیس تولہ چارماشہ چاندی بنتی ہے۔جیولرزسے چاندی کی قیمت پوچھ کرسرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حق مہرکااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ یہ وہ حق مہرہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اداکیا۔امت کے لیے کم سے کم شرعی حق مہردوتولہ سات ماشہ تین رتی چاندی ہے۔ شادی کے وقت چاندی کی رائج قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔ زیادہ حق مہردینے کی کوئی حد مقرر نہیں جتناچاہیں دے سکتے ہیں۔ جب کہ سروردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے زیادہ ولیمہ ایک بکری سے کیا۔مقامی عالم دین نے ایک دن شادی آسان کروتحریک پربات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ عرب میں سب سے چھوٹاجانوربکری ہے۔جب کہ ہمارے ہاں بکری سے گائے بھینس کاگوشت سستا پڑتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کم سے کم جتناولیمہ ہوسکے کرلیاجائے ۔ جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ولیمہ دودھ کے پیالہ سے بھی کیا۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350968 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.