ریاست کے چار بنیادی ستون جن میں عدلیہ،مقننہ،انتظامیہ
اور میڈیا ہیں جن میں سے کچھ تو بہت ہی ’’مقدس ‘‘ ہیں ان پر تنقید کرننے کا
مطلب یہ سمجھیں کہ آپ غداری اور توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں اور آپ ان کے
بارے میں کوئی بھی بات کریں یا ان کی اصلاح یا غلطی کی نشاندہی کرنے کے لیے
بات کرنا چاہیں گئے تو کچھ ٹی،وی چینلز ڈر کے مارے آپ کی بات کو ادھر ہی
دبا دیں گئے اور اخبارات آپ کی خبر یا کالم چھاپنے سے گریز کریں گئے دوسرے
نمبر والوں کو آپ نے اسمبلی میں اپنے اور عوام کے لیے قانون سازی کرنے کے
لیے اسمبلی میں بھیجا ہوتا ہے لیکن وہاں جا کر وہ اپنے لیے قانون سازی کرتے
نظر آئیں گئے یا پھر اپنے اس اہم کام کو بھول کر حکومت بچانے اور توڑنے میں
مصروف نظر آئیں گئے ان کو ہم نے خود مسلط کیا ہوتا ہے ، تیسرا طبقہ
انتظامیہ سب سے اہم اور سب سے زیادہ کام چوری کا شکار ہے جس کی وجہ سے سب
سے زیادہ عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بھی یہی بنتا ہے اور عوام اسی پر
تنقیدکرتے ہیں ان میں بہت سے اچھے لوگ بھی ہیں لیکن اکثریت کے کام چور ہونے
کی وجہ سے اچھے لوگ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر پاتے ان تینوں سے عوام کو بہت
شکایات ہیں اور چوتھا ستون میڈیا جس میں میں خود بھی شامل ہوں اس طبقے سے
عوام کو شکایات تو ہیں لیکن بہت کم کیونکہ اس وقت یہی وہ ادارہ ہے جو عوامی
مسائل کے حل کے لیے ہر ممکنہ کردار ادا کر رہا ہے لیکن یہ طبقہ اپنا ہی سب
سے بڑا دشمن ہے ، آج کی ادھوری باتیں اسی چوتھے طبقے یعنی میڈیا کے بارے
میں کی جائیں گی باقیوں کو بعد میں دیکھا جائے گا کیونکہ احتساب اپنی ہی
ذات سے شروع کرنا چاہیے،
میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا ٹی وی چینلز اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا
کیونکہ موجودہ وقت میں آزاد میڈیا ہی وہ واحد زریعہ ہے جس کے ذریعے عوام
اپنے مسائل عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ تک پہنچا سکتے ہیں اور حل بھی ہو رہے
ہیں کیونکہ آج کے دور میں میرے جیسے کسی بھی عام آدمی کی ان تین اداروں تک
براہ راست رسائی نہیں ہے ،عدلیہ تک پہنچنے کے لیے آپ کی جیب میں اچھا خاصا
پیسا اور عمر نوح بھی ہونی چاہیے ،آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا تو آپ عدالت
کا دروازہ کھٹکانے سے پہلے وکیل کریں گئے وہ آپ سے بھاری فیس لے گا اور پھر
اس فیس کو ڈبل کرنے کے چکر میں آپ کی نسلوں کو بھی پیشیاں بھگتائے گا تو اس
سے بچنے کے لیے آپ کومیڈیا کا سہارہ ہی لینا پڑتا ہے جو کہ آپ کے مسائل کو
نمایاں کوریج دیتا ہے اور عدالت کو ترس آجائے تو سوموٹو ایکشن لے لیا جاتا
ہے دوسرا فائدہ فریق مخالف بھی تھوڑا چوکنا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ نہ
کچھ فائدہ ہو ہی جاتا ہے اسی طرح عوامی نمائندوں یا قانون سازوں تک بھی
میڈیا کے ذریعے ہی خبریں پہنچتی ہیں اور وہ درد دل رکھنے والے ہوں تو عوامی
مسائل کو حل کیا جاتا ہے اور انتظامیہ کو اس وقت صرف میڈیا نے ہی قابو کیا
ہوا ہے وگرنہ ان کے بس کی بات ہو تو عوام کی کھال بھی اتار کر بیچ دیں،
جہاں میڈیا اتنا بڑا کردار ادا کر رہا وہاں اس میں چھپی ہوئی کالی بھیڑیں
یا سیاسی ورکر اپنے ذاتی مفادات کے لیے میڈیا کو بدنام کر رہے ہیں ٹی وی
چینلز کی مثال ہی لے لیں کافی سارے ٹی وی چینلز ایسے ہیں جو کسی نا کسی
سیاسی پارٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں اور مخالف پارٹی کی کردار کشی کے لیے دن
رات ان کا میڈیا ٹرائل کرتے ہیں اور نام نہاد اینکر اپنے من پسند سیاسی
لیڈروں کو سٹوڈیو میں بلا کر ان کو آپس میں لڑواتے ہیں اور نازیبا زبان
استعمال کی جاتی ہے ایسے اینکر سیاسی پارٹیوں کی نجی میٹنگز میں بھی آپ کو
نظر آئیں گئے (جاری ہے) |