میڈیا کی اہمیت اور صحافیوں کی ذمہ داریاں (آخری قسط)

میڈیا میں موجود چندکالی بھیڑوں کی وجہ سے سارے صحافی بدنام ہو رہے ہیں حالانکہ اس وقت ملک میں جتنے مشکل حالات میں صحافی کام کر رہے ہیں ایسے کوئی بھی شعبہ کام نہیں کر رہا ، زلزلہ ہو یا سیلاب کہیں دھماکہ ہو یا آنسو گیس کی شیلنگ صحافی اپنی ڈیوٹی ضرور کرتا ہے اور دوران ڈیوٹی کئی صحافی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کچھ زخمی اور کئی ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکے ہیں اور ان ورکروں کی تنخواہ بھی برائے نام ہوتی ہے یہی لوگ اصل صحافی ہیں ورنہ ائر کنڈیشنرسٹوڈیو میں بیٹھ کر دو تین سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان بحث کروا کر ان کے کارکنوں کے دماغوں میں زہر بھر کر لاکھوں کی تنخواہ لینے والے اینکرز نے جو آسمان سر پہ اٹھایا ہوا ہے وہ سب کو معلوم ہے اور یہ تعداد میں بہت کم ہیں اگر گنتی کی جائے تو دس بارہ سے زیادہ نہیں ہوں گئے لیکن ان دس بارہ کی وجہ سے ہزاروں صحافی بدنام ہو رہے ہیں ، اسی طرح ان میڈیا چینلز کو دیکھا جائے تو ریٹنگ کے چکر میں ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے نظر آئیں گئے دو ،تین چینلز تو ایسے ہیں کہ ہر گھنٹے کے بعد دس منٹ کی خبروں میں سے پانچ منٹ تمام ملک کی خبریں دیں گئے اور باقی پانچ منٹ مخالف چینل کی ٹانگیں کھینچنے میں ضائع کریں گئے جس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں ہوتا اور ان چینلز مالکان کی وجہ سے آج کا میڈیا انتشار کا شکار ہے اور حکومت کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ بہانہ بنا کر کسی مخصوص وقت میں ان کی نشریات پر پابندی لگا دی جائے اور یہ چند چینلز یا صحافی کسی سیاسی پارٹی سے مالی فوائد حاصل کر کے دوسری پارٹی کا میڈیا ٹرایئل شروع کر دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے چھوٹے صحافیوں کو جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں سیاسی جلسوں کی کوریج کے دوران کارکنوں کے غصے نشانہ یہی ورکر بنتے ہیں مالکان تو دبئی اور برطانیہ میں بیٹھ کر انجوائے کرتے ہیں، اگر آج بھی میڈیا اپنا قبلہ درست کر لے اور متحد ہو جائے تو ملک کے مسائل پر بات ہو سکتی ہے اور حکومت میں جرات نہیں ہو گی کہ میڈیا پر پابندی لگائے یا میڈیا کارکنان کو تحفظ نہ فراہم کرے۔اسی طرح میڈیا ہاؤسز کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ چاہے وہ اخبار ہو یا ٹی وی چینل نئے آنے والے صحافیوں سے حلف لے کہ دوران ڈیوٹی کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرے گا (سیاسی یا مذہبی وابستگی اپنی جگہ ہے) اور نہ ہی کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی میں کوئی عہدہ رکھ سکے گا اور کوریج کرتے ہوئے یا علاقے کے مسائل اجاگر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھے گا کہ اس کا جھکاؤ کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کی طرف نہ ہو تا کہ غیر جانبداری کا عنصر قائم رہے اور میڈیا پر عوام کا اعتماد بحال ہو ، حلف کی خلاف ورزی پر نوٹس دیا جائے اگر تسلی بخش جواب نہ ملے تو تحریری طور پر وجوہات بتا کر ذمہ داری واپس لے لی جائے ، لیکن یہ سب اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب میڈیا ہاؤسز کے مالکان ،ایڈیٹرز وغیرہ خود اس اصول پر پورے اترتے ہوں اور مشکل حالات میں کارکن صحافیوں کے تحفظ کے لیے کھڑے رہیں اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں ، اسی طرح ایک رپورٹر یا صحافی کا بھی اخلاقی طور پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بے شک کسی جماعت سے منسلک ہو لیکن دوران ڈیوٹی یا رپورٹنگ سیاسی اور مذہبی وابستگی کو سائیڈ پر رکھ کے رپورٹنگ کرے اور اپنی سیاسی نفرت کی آگ بجھانے کے لیے صحافت جیسا مقدس پلیٹ فارم نہ استعمال کرے اگر مخالف پارٹی کے جلسے کی کوریج کریں یا مخالف سیاسی لیڈر اپنا موقف دے تو اس کو بھی اپنی خبر میں اتنی ہی جگہ دیں جتنی آپ اپنی پارٹی کو دیتے ہیں ۔

اگر میڈیا مالکان ، نیوز ایڈیٹرز اور اخباری رپورٹر اپنے پیشے کی عزت کریں گئے تو عام عوام کے دل میں بھی آپ کے پیشے کی عزت ہو گی ورنہ آپ اپنے ادارے اور اپنے پیشے کے لیے ’’خود کش حملہ آور ‘‘ سے کم نہیں ہیں ۔

Shahid Mehmood
About the Author: Shahid Mehmood Read More Articles by Shahid Mehmood: 23 Articles with 18484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.