اردو زبان کو اپنائیں

مکرمی! ہماری زبان یعنی اردو کتنی سہل اور خوبصورت تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے اِسے گفتگو میں معدوم کرکے رکھ دیا ہے جس کو دیکھو وہ ہی اِس کی ٹانگیں توڑنے میں لگا ہوا ہے ، اور اب تو یہ زبان محض کالم نگار اور حروف رقم کرنے والے ہی استعمال کررہے ہیں ورنہ آپ ٹیلی وژن پروگرامز کا حال دیکھ لیں خصوصاً جب خبر پڑھی جارہی ہوتی ہے تو ساتھ میں جو ٹِکرز اسکرین پر دکھائے جارہے ہوتے ہیں اُس میں الفاظ کی ہڈیاں توڑی ہوئی ہوتی ہیں ۔ ان سب باتوں پر اگر غور کیا جائے کہ اردو کے ساتھ یہ ظلم کیوں روا رکھا جارہا ہے تو دو وجوہ ذہن میں آن پڑتی ہیں پہلی یہ کہ موجودہ دور میں کتب بینی تقریباً ختم ہوچکی ہے اوردوسری وجہ یہ کہ اب اُن محافل کا دائرہ کار بہت محدود ہوگیا ہے جہاں ادیب، شاعر اور سوچنے والے افراد کو بُلایاجاتا ہے ۔ جہاں تک بات ہے اردو کتب بینی کی تو ایسا بالکل نہیں کہ یہ صفحہِ ہستی سے بالکل مِٹ ہی گئی ہو لیکن اب وہ ادب نہیں رہا آج کل چند لکھاریوں کے ناول بہت زیادہ پڑھے جارہے خصوصاً طالبات میں، لیکن اُس ادب کا معیار کاغذی ردّی سے کچھ زیادہ نہیں ، معاف کیجئے گا میں نے کچھ غلط نہیں لکھا۔ اوردوسری وجہ اردو محافل جو کہ ٹیلی وژن سے قبل بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں ، اُ س وقت لوگوں کے مطمعِ نظر ا دیب اور شُعراء ہوا کرتے تھے ، تقریباً ہر گھر میں ہی اردو کتابوں کا مطالعہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب اس ظالم ترقی کی دوڑ نے اخلاقیات اور جمالیات کے مطالب و مفہوم کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔

چند روز قبل جامعہء کراچی میں ہمارے استادِ محترم جناب جعفر عسکری صاحب نے ایچ۔ای۔جے، عالمی ادارہ برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم کے تحت سلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم میں بلاگ رائٹنگ ، سائنس اور اردو زبان کی ترویج سے متعلق ایک تقریب منعقد کروائی جس میں شہرہءِ آفاق شاعر جناب فراست رضوی ، جامعہ ء اردو کے شعبہ ء ابلاغِ عامہ کے سابق چیئرمین جناب ڈاکٹر توصیف احمد خان صاحب اور ڈان اردو ویب سائٹ کے ملٹی میڈیا ہیڈ جناب بلال کریم مُغل تشریف لائے تھے ۔ادارہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اقبال چوہدری صاحب نے سائنس کی ترقی کو عام آدمی سے جوڑ دیا ، کہنے لگے سائنس عام آدمی کی ضرورت ہے اور اپنا ایک واقعہ بتانے لگے کہ ایک دفعہ وینِس میں نئے طرز کی گاڑی دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ ایک راہ چلتے آدمی نے دریافت کیا خیریت تو اُنہوں نے پہلے یہ سوچا کہ نہ معلوم اس کو اس گاڑی کے طرز کے بارے میں کچھ پتہ ہوگا یا نہیں لیکن جب انہوں نے اُس سے پوچھا تو اُس نے سائنسی وجوہ کے ساتھ اُنہیں بتایا کہ یہ ہواکو کاٹنے کیلئے بنایا گیا ہے تاکہ کم تیل یا گیس پر زیادہ دُور جاسکے، انہوں نے بتایا ایسا اس لیئے ہے کیوں کہ وہ عام آدمی اسلئے بتا سکا کیونکہ سائنسی علوم اُس کلچر کا حصہ ہیں یعنی اُن کی اپنی زبان میں ہیں ۔ جی ہاں یہ زبان کی اہمیت ہے اگر کوئی مُلک آج ترقی یافتہ ہے تو وہ اسی وجہ سے کیونکہ وہ اپنی زبان سے جُڑے ہوئے ہیں آپ چین کو دیکھ لیں وہ لوگ انگریزی میں بات کرنا بالکل گوارہ نہیں کرتے اسی لیئے وہاں کا ایک عام انسان بھی جدید تکنیک کاری سے واقف ہے۔ پھر ڈاکٹر توصیف احمد خان صاحب نے زبان اور سائنس کے باہم ملاپ کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ سائنس کا اپنی زبان میں ہی پڑھنا زیادہ ضروری ہے ورنہ یہ علم محدود ہوکر رہ جاتا ہے ۔ جناب فراست رضوی نے اردو کے بارے میں کئی انکشافات کیئے کہ اردو کی سب سے بڑی لغت کسی لکھنوی یا دہلوی نے تصنیف نہیں کی بلکہ جالندھر کے ایک شخص فتح محمد جالندھری نے کی ہے جس کا نام’ مصباح القواعدـــ‘ ہے اور جِن کا قرآن کا ترجمہ تمام مسالک میں یکساں مقبول ہے ، کہنے لگے کہ اردو زبان میں آپ کو لاکھوں کُتب مِل جائیں گی مگر اردو زبان سیکھنے کیلئے محض چار کُتب ہیں جن کے نام بہر و الفصاحت ، وضع الاصطلاحات ، نوادر ُالالفاظ اور کیفیہ ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال ؒ کے بارے میں بھی انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ایک لغت اس طرح پڑھتے تھے گویا کہ کوئی ناول ہو۔ اس کا نام بہارِ عجم ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو شاذ و نادر ہی لُغت کے اوراق پلٹتے ہیں لیکن پُرانے لوگ کتاب کی مانند پڑھا کرتے تھے۔ رضوی صاحب نے ترجمہ کی اہمیت کا بھی دورہ کروایا ، کہتے ہیں کہ آج اگر آپ عالمگیر شخصیات کے بارے میں جانتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اُنہیں اُن کی زبان میں نہیں بلکہ ایک عالمی زبان انگریزی میں پڑھا ہے۔

حقیقت ہے اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اپنی زبان کو اپنانا ہوگا ورنہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ ہم خود اپنی پہچان بھی کھو دیں گے۔
 

Abdullah Ibn-e-Ali
About the Author: Abdullah Ibn-e-Ali Read More Articles by Abdullah Ibn-e-Ali: 22 Articles with 18644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.