ٹرین تیزی سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی طرف دوڑنا شروع
ہو گئی
تھی،،،سلمان نے بزنس کلاس کے اے سی ڈبے میں اپنے بلیک سن گلاسز
اتار کر اک لمبی پرسکون سی سانس لی،،،
اس کے علاوہ بوگی میں پانچ مسافر اور تھے،،،نئی دلہن،،،ساس سسر،،،بیٹا اور
ستائیس سالہ خوبرو سی بہن،،،وہ سب بہت ہی خوش تھے،،،
سلمان نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں سختی سے موند لیں،،،
بانو بولی،،،ہائے سلمان بیٹا،،،ندا تو راج کر رہی ہے،،،لگ ہی نہیں رہا تھا
کہ یہ
ہماری ہی ندا ہے،،،گال بھر گئے،،،بات بات پر قہقہے لگاتی ہے،،،
امجد تو مجھے اپنی ماں سی عزت دے رہا تھا۔مگر،،،بانو اک دم سے چپ ہو
گئی،،،وہ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ بولے ناں بولے،،،
سلمان مسکرا کر بولا،،،جی جانتا ہوں میرا اک بار بھی نہیں پوچھا ہو گا،،،ہے
نا
بانو کی آنکھیں حیرت کے سمندر سا بن گئیں،،،بیٹا سب کیسے پتا چل جاتا ہے؟
سلمان مسکرا کر بولا،،،اب وہ امجد کی بیوی ہے اس کی عزت اس کا مان،،،میں
اب پرایا ہو گیا،،،وہ ہمیشہ سے گناہ کرنے سے بچتی ہے،،،
میں ویسے بھی ہائی وے کے سٹاپ جیساہوں،،،زندگی پل بھر کو سانس لیتی
ہے،،،پھر رواں دواں،،،
آپ چائے پیئیں گے؟؟،،،! سلمان کے کندھے کو کسی نے بہت نرمی سے ہلایا
سلمان گم سم سا دیکھنے لگا،،،جیسے اسے سمجھ ہی نہ آیا ہو ،،،یا،،،وہ یہ
زبان ہی نہیں جانتا ہو،،،
بس نفی میں سر ہلا کر پھر سے آنکھیں موند لیں۔
فیکٹری کا گیٹ کیوں بند ہے؟؟
آپ کو نہیں پتا،،،کینڈا میں کریم صاحب کا بیٹی فوت ہو گیا ہے،،،بیٹی
پیدا ہوا تھا نا،،،اسی میں اللہ کو پیارا ہو گیا،،،سب لوگ کینڈا ہیں،،،
سلمان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی،،،اوہ میرے اللہ!!!
تین دن بعد فیکٹری ویسے ہی چل رہی تھی،،،اک اس کی مالکن کم ہو گئی
تھی،،،مگر نہ مشین کو فرق پڑا،،،نہ انسانوں کو،،،بس اک گھر ماتم زدہ تھا،،،
سلمان صاحب آپ کے لیے کینڈا سے فون ہے،،،سلمان تیزی سے فون کیلئے
لپکا،،،دوسری طرف سے روزی تھی۔
سلمان،،،اور خاموشی،،،پھر سسکیاں،،،
سلمان زور سے بولا،،،کریم صاحب اور آنٹی سب ٹھیک ہیں؟ بولو ،،،کیا ہوا؟؟؟
ہمت کرو،،،
سلمان!! پھر سے رونے کی آواز،،،سلمان آسمان اور زمین کے درمیان معلق
ہو گیا،،،
سلمان اس ننھی پری کو ماں چاہیے،،،تیمور بھائی کو جو اب میرے لیے صرف
تیمور بننے جارہے ہیں،،،اک بیوی جو اس کی پری کو ماں بن کر چاہے،،،
یہ ہمارا خون ہے سلمان،،،اسے کیسے بے سہارا ہونے دے سکتی ہوں میں،،،
سلمان! اِٹس مائی لاسٹ کال،،،اینڈ ریکویسٹ،،،بس جب میں مسز تیمور بن
کے پاکستان آؤں،،،تو پلیز تم ناں نظر آنا،،،
پلیز اک بار پھر بے نشان سے ہو جاؤ،،،تم تو عادی ہو،،،آئی کانٹ فیس
یو،،،،بٹ
ڈیمڈ آئی لّو یو،،،گو اوے،،،آئی ڈونٹ وانا سی یو،،،جسٹ گو اینی ویئر،،،آئی
کانٹ
فیس یو،،،سلمان،،،بس،،،
سلمان نے فون رکھ دیا،،،جو ہمیشہ حکم دیتی آئی تھی،،،التجا کرتے ہوئے
اچھی نہیں لگ رہی تھی،،،
سلمان نے ریزائن ٹائپ کیا،،،ریزن میں،،،اَن وائڈ ایبل سرکم سٹینسز لکھ کر
گھر آکر بیگ اٹھایا،،،اور ٹرین کے لیے چل پڑا،،،
بے نام و نشان نہیں میں،،،میرے بھائی ہیں بہنیں ہیں،،،گھر ہے،،،
آپ کھانا کھائیں ناں ہمارے ساتھ،،،لڑکی نے جو دلہا کی بہن تھی،،،سلمان
سے کہا،،،سلمان ذرا جھنپ سا گیا۔
لڑکی نے غور سے سلمان کی طرف دیکھا،،،،آپ رائٹر ہو؟؟
سلمان حیران سا دیکھنے لگا،،،لڑکی نے جھٹ سے پوئٹری اور افسانے والا
میگزین جس پر اس کی بلیک اینڈ وائٹ پکچر لگی ہوئی تھی،،،سامنے کردیا،،،
اس سے پہلے کہ سلمان کچھ کہتا،،،وہ جھٹ سے بولی،،،اپنی وہ غزل سنادیں
اپنی آواز میں،،،کتنی اچھی بات ہے آپ کے ساتھ سفر ہو رہا ہے،،،
لڑکی کی ماں بولی،،،بیٹا اگر اس کو کھانا کھلانا ہے تو کھلا دو،،،تنگ نہ
کرو،،،
لڑکی جھٹ سے بولی،،،سلمان صاحب! آپ کیا تنگ ہو رہے ہیں؟؟،،،
سلمان مسکرا کر بولا،،،میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا،،،آپ کھلا دیجئے
گندم اندر جائے گی شعر باہر خود بخود آنے لگیں گے،،،
تیرا ہر رنگ عجب ہے
روپ بھی کیا غضب ہے
سفر ہے مختصر
مگر دلچسپ ہے
میں جو جی رہا ہوں شاید وجہ تم ہو
اب کہہ دو کہ خوش ہو یا مجھ سے تنگ ہو
لڑکی نے زور سے قہقہہ لگایا،،،ٹرین نے زور دار سیٹی بجائی،،،،،،(سفر کا
اختتام)
|