ایک طرف مُلک کے طول و ارض میں سردی نے اپنے پنجے گاڑ
رکھے ہیں اور موسم سرد سے سرد تر ہوتا جا رہاہے تو دوسری جا نب پاکستان میں
جا ری سیاسی اور مقدماتی اُفق کا درجہ حرارت بھی گرم ترین سطح پر پہنچ
رہاہے کچھ کے عدالتی فیصلے ہو گئے ہیں اور بہت سوں کے ا بھی عدالتی فیصلے
آنے با قی ہیں الغرض یہ کہ اِن دِنوں جہاں پاکستا نی قوم کو ایک ساتھ
دوموسموں(سردی کے موسم میں سردی ) اور سیاسی و مقدما تی اور دھرنیاتی
(دھرنوں کے نئے پر انے )سلسلے والے موسم سرمامیں گرمی کا احسا س ہورہا ہے
تووہیں مو جودہ حالات اور واقعات میں پاکستا نی قوم کو اپنے سیاست دا نوں
کے رویوں سے یہ احساس بھی شد ت سے ہو نے لگا ہے کہ آج مُلک کے لو لے لنگڑے
جمہوری سسٹم کو کو ئی اور نہیں جمہوریت کے پنڈٹ ہی جمہوریت کی آرتھی جلا نے
کو ہیں اور اَب اِس میں کو ئی شک نہیں کہ اِن حد سے گزرتے سیاسی پنڈٹوں نے
تہیہ کرلیا ہے کہ یہ آپس میں لڑ جھگڑ کا خو د ایسے حالات پید ا کردیں کہ
جمہوریت کا شیرازہ اِن ہی کے ہا تھوں بکھر جا ئے اور پھر یہ خود ہی جمہوریت
کی آرتھی کو آگ لگا کر اِس کی خا ک ہوا میں اُڑا دیں اور الزام کسی خفیہ
قوت کے سر مار کر جمہوری دیوی کے مر نے پر رونا روتے پھیریں اوردر در جا کر
اپنی مظلومیت کی بھیک ما نگتے پھریں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا یہ
کہنا ’’ لگتا نہیں حکومت مدت پوری کرے ‘‘ بھی ایسی ہی مظلومیت اور آہ و
فغاں کی ہی ایک کڑی ہے اَب جِسے سب سمجھتے ہیں کہ آج حکومت اپنی مظلومیت کے
لئے کیا کیا؟اور کیسے کیسے جتن کررہی ہے ؟افسوس ہے کہ یہ خو د کو سُدھا رنے
کے لئے ابھی تک تیار نہیں ہے بلکہ حکومت آنکھیں بند کئے اعلیٰ عدلیہ کے
فیصلوں کے خلاف’’ مجھے کیو ں نکا لا ؟ اور اُسے کیوں نکا لا ؟ کی رٹ لگا ئے
جا رہی ہے اور عوام کو اداروں سے ٹکرا ؤ کے لئے مسلسل اُکسا نے میں مصروف
ہے اور ہر وہ حربہ استعمال کررہی ہے جس سے انارگی پھیلے ۔
تا ہم آج مُلک میں قبل ازوقت یا بعداز حکومتی مدت الیکشن کے حوالے سے سیاسی
اور مذہبی جماعتوں کے نئے اتحاد کا جنم لیا جا نا ایک انتخا بی فطر ی عمل
ہے، پاکستان میں پرا نے اتحا د ٹوٹ رہے ہیں اور نئے اتحا د بن رہے ہیں تو
یہ کو ئی انوکھا اور مکروہ فعل نہیں ہے بلکہ دنیا کی جس ریاست میں بھی
انتخا بات ہو نے کو ہو تے ہیں ہر جگہہ سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ انتخا بات سے
پہلے تک جاری رہتا ہے اور آج جب ہمارے یہاں ایسا ہو رہا ہے تو کچھ عجب نہیں
ہے ایسا تو ہوتا ہے جب بھی کہیں عام انتخا بات ہو تے ہیں۔
جبکہ یہ امریقینا کسی حد تک ٹھیک ہے مگر آج متحدہ مجلس عمل کے مر دہ گھوڑے
میں جا ن ڈالنے کے لئے پا نچ بڑی دینی جما عتوں نے وہ کام کردِکھا یا ہے جو
اِن کے علاوہ کو ئی نہیں کرسکتا متحدہ مجلسِ عمل میں شامل اہم پا نچ بڑی
جماعتوں نے ایم ایم اے کو مکمل طور پر بحال کرکے فعا ل کرنے کا اعلان ایک
اجلاس میں کیا ہے اگرچہ اِن پا نچ دینی جماعتوں نے اپنے سر کا بوجھ تو یہ
اعلان کرکے ’’ 2018ء (کے متوقعہ ) عام انتخا بات میں ایم ایم اے کے پلٹ
فارم سے حصہ لیا جا ئے گا اور آئندہ الیکشن کتا ب کے نشا ن پر لڑا جا ئے گا
‘‘ہلکا کردیا ہے مگر اِس کے با وجود بھی دیکھنا یہ ہے کہ کیا ا بھی ایم ایم
اے کا اتحاد اُس طرح قا ئم رہ سکے گا ؟ جس طرح ما ضی کچھ عرصے تک دیکھا گیا
تھا؟یا اِس مرتبہ جہاں اِن پا نچ دینی جماعتوں کے اتحاد پر اور بہت سے
خدشات اور مخمصے زوروں سے جنم لے رہے ہیں تو وہیں ایک خدشہ اِس کی قا ئدا
نہ صلا حیتوں کی حا مل کسی غیر متنازعہ شخصیت کے چناؤ پربھی بہت بڑا سوالیہ
نشان ابھی تک لگا ہوا ہے؟ کیا ایم ایم اے میں شامل موجودہ پا نچ دینی
جماعتوں میں کو ئی ایسی شخصیت موجودہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے اور آنے
والے وقتوں میں چیلنجز سے نبرد آزما ہو نے کے لئے اپنی ذات سمیت سب کو ساتھ
لے کر چلے اور اجلاس میں ہو نے والے فیصلے اور ایجنڈے کے مطا بق ایک ماہ
میں حکومت سے علیحدگی سمیت فا ٹا کے حوالے سے کے پی کے کی سطح پر ایم ایم
اے میں شا مل جماعتوں کا اعتماد بحال کرنے میں کا میاب ہو کر کو ئی حتمی
فیصلہ کر سکے ؟ ۔
مُلک میں پل پل اور تیزی سے بدلتی سیاسی صورتِ حال یہ بتا رہی ہے کہ عوا می
مسائل کے حل کے لئے مثبت کردارادا کرنے والے مُلکی ایوان عوا می مسائل حل
کر نے میں نا کام ہو گئے ہیں،ایوان کا کورم پورا نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ
ہے ایک فا ٹا کے معا ملے میں کورم کا پورا نہ ہونا کو ئی نئی بات نہیں ہے
موجودہ ایوان میں پچھلے چا ڑھے چا رسا لوں میں عوا می مسا ئل کے حل کے
حوالوں سے کبھی بھی کو رم پورا نہیں ہوا اور عوا می مسائل حل ہو ئے بغیر
سرخ فا ئل کی نظر ہو گئے ا ور عوام کے دامن میں سوا ئے مایوسیوں اور آنسووں
کے کچھ نہ آیاآج ن لیگ کی حکومت اِس لئے تنہا ہو گئی ہے مسلم لیگ (ن) کو
اگلے عام انتخابات سے پہلے مارچ میں سینٹ کے ہو نے والے انتخابات میں خود
کو سنبھالنا مشکل ترین ہوتاجارہا ہے اِندر اور باہر سے ن لیگ شدید دباؤ کا
شکار دِکھا ئی دیتی ہے اِس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا نیا اتحاد سا منے
آنا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ نوازشریف اور ن لیگ کی حکومت کو اگلے متوقعہ
انتخا بات میں جن اقسام کے چیلنجز کا سا منہ ہوگا اِن کان لیگ کو کبھی گمان
بھی نہیں ہواہوگا اِس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ نوا زشریف اور ن لیگ کی
حکومت نے سوا ئے پنجا ب اور لاہور کے کبھی بھی سنجیدگی سے سندھ (کراچی)کے
پی کے(پشاور) اور بلوچستان (کو ئٹہ ) اور دیگر شہروں کے عوامی مسا ئل حل
کرنے کے لئے وفا قی سطح پر کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کئے ۔
اَب اِس پس منظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بس کردو بس ،کیو ں کہ آج قوم
حکمرا نوں اور سیاستدانوں کی عیاریوں اور مکاریوں کو جان چکی ہے،اِسے سب لگ
پتہ گیا ہے کہ قیام ِ پاکستان کے بعد چند سا لوں کو چھوڑ کر آج تک سرزمینِ
پاکستان پر کسی بھی شکل میں (سِول یا آمر) جتنے بھی حکمران آئے سب ہی نے
اپنی جیب اور اپنی ہی جھولی بھری اور چلتے بنے آج بھی قوم کو یہ قوی اُمید
ہے کہ اِن دِنوں جتنے بھی سیاسی اور مذہبی نئے اتحاد جنم لے رہے ہیں اِنہیں
اِن اتحادوں سے بھی کچھ نہیں ملنے والا ہے اگر مُلک میں اگلے سال 2018ء میں
ہونے والے متوقعہ انتخابات ہو ئے بھی تو پھر کو ئی نیا لٹیرا حکمرانی کی
صورت میں پا نچ تک قومی خزا نے کو عوامی فلاح و بہبود اور ترقیا تی منصو
بوں کی آڑ میں عوا می حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا اور مزے سے قو می خزا نہ دونوں
ہا تھوں سے لوٹ کھا ئے گا اور اپنے پیش رو نوازشریف کی طرح کئی آف شور
کمپنیاں بنا لے گا اور کسی اقامے کی بنیا د پر نا اہل قرار پا کر قومی دولت
کو پھر بھی قومی خزا نے میں وا پس ڈالے بغیر آسا نی سے چلا جا ئے گا اور
پھر کوئی آئے گا جوحکومت کرتے کرتے کرپٹ ترین زرداری کی طرح یہ بھی اربوں
قومی دولت لوٹ کر لے جا ئے گااور بیرون ممالک کے بینکوں میں رکھ کرسا ری
زندگی مزے لیتا رہے گا اور مُلک میں زرداری کی طرح قا نونی گرفت میں آئے
بغیر آزادی سے گھومتا پھرتا رہے گا اور قوم روتی رہے گی۔(ختم شُد)
|