امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:جب امیر
المومنین علیہ السلام خوارج سے جنگ کرنے کے بعد لوٹ رہے تھے تو آپ کا گزر
ایک راہب کے صومعہ (عبادت گاہ )کی طرف سے ہوا ۔آپ نے راہب سے فرمایا :کیا
میں یہاں قیام کرسکتاہوں؟
اس نے عرض کیا :آپ لشکر سمیت یہاں قیام نہ کریں ۔
امام نے سوال کیا :کیوں ؟
اس نے کہا:چونکہ یہاں سوائے نبی یا وصی نبی کے جو کہ راہ خدا میں جہاد کرتے
ہیں کسی اوراپنے لشکر کے ہمراہ قیام نہیں کیاہے اور یہ بات میں نے اپنی
کتاب میں پڑھی ہے۔اس نے مزید کہا کہ میں نے آپ کے کردار کے متعلق کتاب
انجیل میں مطالعہ کیا ہے اور یہ پڑھا ہے کہ آپ براثا نامی سرزمین پر اتریں
گے جہاں جناب مریم کا مقام اور جناب عیسیٰ کی سرزمین ہے۔
اما م نے فرمایا:ٹھہرجاؤ !اب اس سے آگے کچھ مت کہنا ۔اس کے بعدآپ ایک مقام
پر آئے اورفرمایا:یہاں سے پتھر ہٹایاجائے ۔پھر آپ نے خودٹھوکر مار کر وہاں
سے پتھر ہٹایا ۔وہاں پر ایک چشمہ ابلنے لگا ۔آپ نے فرمایا کہ یہ جناب مریم
کا چشمہ ہے جو ان کے لئے جاری ہواتھا ۔سترہ ہارتھ لمبائی میں کھودو ،جب
کھودا گیا تو ایک چٹان نکلی۔امام نے فرمایا:اسی چٹان پر جناب مریم نے جناب
عیسیٰ کواپنے کاندھے سے اتار اتھا اورنماز ادا کی تھی ۔پس امام نے بھی اس
چٹان کو نصب کیا،وہاں نماز ادا کی اور چارروز تک وہیں قیام فرمایا۔نماز
اداکی ،فوجیوں کا خیمہ نصب کیا اورفرمایا:یہ ارض براثاہے ۔یہ جناب مریم
کامقا م ہے ۔یہ مقدس ترین جگہ ہے جہاں انبیاء نے نماز ادا کی تھی ۔(بحارا
لانوار ج۳۳،ص ۸۳۴ح۶۴۵)
مفضل بن عمر نے امام صادق علیہ السلام سے ایک طولانی روایت نقل کی ہے۔․․․اس
کے بعدامام نے ایک سانس لی اور فرمایا ـ:اے مفضل!زمین کے مختلف حصوں نے ایک
دوسرے پر فخر ومباہات کیا تواﷲ تعالیٰ نے وحی نازل کی یہ ارض کربلا ہے جو
مقدس اور بابرکت جگہ ہے اور زمین کا وہ حصہ ہے جہاں سے جناب موسیٰ کوایک
درخت کے ذریعہ ندا دی گئی تھی۔یہ ایک پہاڑی ہے جہاں جناب مریم و عیسیٰ نے
پناہ لی تھی ۔وہاں ایک ندی ہے جہاں امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس
کودھلا گیا۔وہی پر جناب مریم نے جناب عیسیٰ کو دھلا تھا اور ان کی ولادت کے
بعد انہیں غسل کیا تھا ۔یہ ایک بہترین جگہ ہے جہاں سے رسول اﷲ کو معراج
ہوئی تھی ۔یہ زمین اس وقت تک پاک وپاکیزہ رہے گی جب تک ہمارے شیعوں کے آخری
امام ،حضرت مہدی ظہور نہ ہوجائے ۔(بحارالانوار ج ،۵۳ص ۱ح۱۱)
رسول خدا کا اشادگرامی ہے :جب عورت کے یہاں ولادت ہو تو اسے سب سے پہلے ایک
مٹھی تازہ کھجور یا میٹھا کھجور کھانا چاہئے۔اس لئے کہ اگر اس سے بہتر کوئی
شے ہوتی اﷲ جناب عیسیٰ کی ولادت کے وقت جناب مریم کو وہی شے عطا
کرتا۔(بحارا لانوار ج ،۵۹ص ۲۹۵)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اﷲ نے جناب مریم کو جناب عیسیٰ کی
اس وقت بشارت دی تھی کہ جب وہ محراب میں تھیں کہ روح الامین ایک اچھے خاصے
آدمی کی شکل میں ان کے سامنے ظاہر ہوئے ۔یہ دیکھ جناب مریم نے کہا:اگر تو
خوف خدا رکھتاہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔
اس نے کہا:میں آپ کے رب کا فرستادہ ہوں کہ آپ کو ایک پاکیزہ فرزند عطاکروں
۔اس کے بعدروح الامین نے جناب مریم کے رحم میں ایک پھونک ماری اور وہ حاملہ
ہوگئیں․․․یہاں تک کہ جناب عیسیٰ کی ولادت ہوگئی۔ابلیس اس رات آیا تو اس سے
کہاگیا کہ آج شب میں ایک ایسے بچہ کی ولادت ہوئی کہ روئے زمین کے سارے بت
منھ کے بل زمین پر گر پڑے ہیں ۔ابلیس مشرق و مغرب میں اس مولود کو تلاش
کرنے لگا یہاں تک اسے بیت دیر میں پا یا کہ ملائکہ اسے اپنے حلقہ میں لئے
ہوئے ہیں۔ابلیس نے اس کے قریب جانے کی کوشش کی تو ملائکہ نے چیخ مارکر کہا
کہ یہاں سے چلاجا۔
ابلیس نے ملائکہ سے پوچھا :اس کا باپ کون ہے ؟
ملائکہ نے جواب دیا :اس کی مثال آدم جیسی ہے ۔
ابلیس نے کہا:میں اس مولود کے ذریعہ ۸۰ فیصد لوگوں کو گمراہ کروں گا
۔(بحارالانوار ج ۱۴ ص۲۱۵ح ۱۴)
امام جعفر صادق نے فرمایا:ابلیس جناب عیسیٰ کی ولادت سے قبل ساتوں آسمانوں
سے گزرا کرتاتھا لیکن آپ کی ولادت کے بعد آسمان کے تین راستے اس کے لئے بند
کردیئے گئے۔(بحا رالانوار ج ۱۵ص ۲۵۷ح۹)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:رسو ل اﷲ نے مسلمانوں کو چار کنیت
رکھنے سے منع فرمایاہے:ابو عیسیٰ ،ابو حاکم ،ابو مالک اور ابو القاسم اگر
اس کا نام محمد ہو ۔(بحارالانوار ج ۱۶ص ۴۰۱)
نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:جناب موسیٰ اورجناب داؤد کے درمیان پانچ سو سال
کا فاصلہ تھا اور جناب داؤد اور جناب عیسیٰ کے درمیان گیارہ سو سال کا
۔(بحارالانوار ج ۱۳ص۳۶۳ح۱)
نافع نے کہا:․․․اے محمد بن علی ! میں توریت ،انجیل ،زبور اور قرآن کامطالعہ
کر چکا ہوں اور اس میں جو کچھ حلا ل و حرام ہے سب کا علم رکھتاہوں ۔میں آپ
کے پا س کچھ ایسے سوالات لے کر آیاہوں جن کا جواب نبی ،وصی نبی یا آل نبی
کے سواکوئی اورنہیں دے سکتا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے سر اٹھا یا اور فرمایا:جوکچھ تیری سمجھ میں
آئے پوچھ !
اس نے عرض کیا:مجھے بتائیں کہ جناب عیسیٰ اورمحمد مصطفی کے مابین کتنے سال
کا فاصلہ ہے۔
امام نے فرمایا:اپنے نظریہ کے اعتبار سے بتاؤ یا تیرے ؟
اس نے عرض کیا:دونوں نظریہ کے اعتبار سے ۔
امام نے فرمایا:میرے نظریہ کے اعتبار سے جناب عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ
کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور تمہارے نظریہ کے مطابق چھ سو سال کا
۔(الکافی ج ۸ ص ۱۲۰ح۹۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :جناب عیسیٰ اورحضرت محمد ﷺ کے
درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے ۔جن میں دوسو پچاس سال کے درمیان کوئی نبی
نہیں تھا اورنہ ہی کوئی عالم ظاہر تھا ۔راوی نے سوال کیا: تو اس وقت کے لوگ
کس دین پر تھے ؟
امام نے جواب دیا:لوگ دین عیسیٰ سے متمسک تھے ۔
پھر سوال کیا :تووہ کیا تھے ؟
امام نے جواب میں فرمایا:مومن تھے ۔اس کے بعد امام نے فرمایا :زمین کبھی
بھی عالم سے خالی نہیں رہی ہے ۔(بحارالانوار ج ۲۳ص۳۳ح۵۴)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق روایات کو جمع کیا گیا۔(مترجم) |