تحریر: محدث غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
روایت نمبر: 1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی
نماز نہ پڑھ سکے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ آپ نے فرمایا : علی ! کیا
آپ نے نماز پڑھی ہے انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ نے دعا کی : اے اللہ !
علی تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری میں مشغول تھے، ان کے لیے سورج کو
لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے، میں نے سورج کو
غروب ہوتے بھی دیکھا، پھر سورج کے غروب ہوجانے کے بعد اسے طلوع ہوتے بھی
دیکھا۔ “ [السنة لابن أبي عاصم : 1323، مختصرا، مشكل الآثار للطحاوي :
9/2، المعجم الكبيرللطبراني : 152,147/24، تاريخ دمشق لابن عساكر : 314/42]
تبصره :
اس کی سند ’’ضعیف “ ہے، کیونکہ :
ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابوطالب راوی ’’مجہول الحال “ ہے۔
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 3/6] کے کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بذٰلك المشهور فى حاله۔ ’’اس کا حال مجہول ہے۔ “ [البداية والنهاية :
89/6]
◈حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
فيه من لم اعرفهم .
’’اس روایت میں ایسے راوی ہیں، جن کو میں نہیں پہچانتا۔ “ [مجمع الزوائد :
185/9]
لیکن ایک مقام پر امام ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو ثقہ
کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 297/8]
یہ تساہل پر مبنی فیصلہ ہے، جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں۔
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس میں دوسری وجہ ضعف یہ بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ
بنت حسین بن علی بن ابی طالب جو کہ امام زین العابدین رحمہ اللہ کی ہمشیرہ
ہیں وہ ہیں تو ثقہ، لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت سیدہ اسما رضی
اللہ عنہا سے سنی ہے یا نہیں ؟ [البداية والنهاية : 89/6]
◈ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا سماع إبراهيم من فاطمة، ولا سماع فاطمة من أسمائ، ولا بد فى ثبوت هٰذا
الحديث من أن يعلم أن كلا من هٰؤلائ عدل ضابط، وأنه سمع من الآخر، وليس
هٰذا معلوما .
’’نہ ابراہیم کا فاطمہ سے اور نہ فاطمہ کا سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سماع
ثابت ہے۔ اس حدیث کے ثبوت کے لیے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اس کے تمام
راوی عادل و ضابط ہیں یا نہیں، نیز انہوں نے ایک دوسرے سے سنا ہے یا نہیں۔
مگر اس روایت کے راویوں کے متعلق یہ بات معلوم نہیں ہو سکی۔ “ [منهاج السنة
النبوية : 189/4]
تنبیہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح
کہا ہے، بے حقیقت بات ہے۔
——————
روایت نمبر: 2
سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے :
إن النبى صلى الله عليه وسلم صلى الظهر بالصهباء، ثم أرسل عليا عليه
السلام فى حاجة فرجع، وقد صلى النبى صلى الله عليه وسلم العصر، فوضع النبى
صلى الله عليه وسلم رأسه فى حجر علي، فلم يحركه حتٰي غابت الشمس، فقال
النبى صلى الله عليه وسلم : ’اللهم، إن عبدك عليا احتبس بنفسه علٰي نبيك،
فرد عليه شرقها‘، قالت أسماء : فطلعت الشمس حتٰي وقعت على الجبال وعلي
الـأرض، ثم قام علي، فتوضأ وصلي العصر، ثم غابت، وذٰلك فى الصهبائ، فى
غزوة خيبر .
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صہبا نامی جگہ پر نماز ظہر ادا کی۔ پھر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کسی کام بھیجا۔ جب وہ واپس آئے، تو نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا فرما چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنا سرمبارک ان کی گود میں رکھا۔ انہوں نے حرکت نہ کی، (کہیں آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل نہ آ جائے )، یہاں تک کہ سورج غروب ہو
گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی : اے اللہ ! تیرے بندے علی
نے اپنے آپ کو تیرے نبی کے لئے روکا ہوا تھا، لہٰذا ان پر سورج کو لوٹا دے۔
سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سورج اوپرآ گیا، یہاں
تک کہ اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ
عنہ کھڑے ہوئے، وضو کیا اور عصر کی نماز پڑھی۔ پھر سورج غروب ہو گیا۔ یہ
واقعہ غزوۂ خیبر کے موقع پر صہبا نامی جگہ پر پیش آیا۔ “ [مشكل الآثار
للطحاوي : 1068، المعجم الكبير للطبراني : 145,144/24]
تبصره :
اس کی سند بھی ’’ضعیف “ ہے، جیسا کہ :
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کا ضعف و سقم یوں بیان کرتے ہیں :
وهٰذا الإسناد فيه من يجهل حاله، فإن عونا هٰذا وأمه لا يعرف أمرهما
بعدالة وضبط، يقبل بسببهما خبرهما، فيما هو دون هٰذا المقام، فكيف يثبت
بخبرهما هٰذا الـأمر العظيم الذى لم يروه أحد من أصحاب الصحاح، ولا
السنن، ولا المسانيد المشهورة، فالله أعلم، ولا ندري أسمعت أم هٰذا من
جدتها أسمائ بنت عميس أو لا .
’’اس سند میں عون اور اس کی والدہ کے حافظے اور عدالت کے متعلق کچھ معلوم
نہیں۔ یہی دو امور ہیں جن کی بنا پر ان کی روایت قبول کی جا سکتی تھی اور
ان میں وہ قابل قبول مقام تک نہیں پہنچ پائے۔ ان کے بیان کی بنیاد پر ایک
ایسا اہم مسئلہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے، جس کو نہ مشہور اصحابِ صحاح و سنن و
مسانید میں سے کسی نے بیان نہیں کیا۔ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ ام عون کا
سیدہ اسما بنت سے عمیس رضی اللہ عنہا سماع بھی ہے یا نہیں۔ “ [البداية
والنهاية : 88/6]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ عون بن محمد کے بارے میں فرماتے ہیں :
ولم أجد من ترجمه . ’’مجھے اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ “ [مجمع
الزوائد : 237/3، 50/4]
↰ ایک روایت، جس کی سند میں عون بن محمد اور اس کی ماں ام عون موجود ہیں،
کے بارے میں :
◈ ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :
’’اس سند میں ایسے راوی ہیں، جن کے حالات کا واضح ہونا ضروری ہے۔ “ [الجوهر
النقي فى الرد على البيهقي : 396/3]
لہٰذا عون بن محمد کی ایک دوسری روایت کی سند کو حافظ منذری [الترغيب
والترهيب : 89/3] اور حافظ ابن حجر کا ’’حسن “ کہنا، نیز حافظ عراقی [فيض
القدير للمناوي : 327/4] کا ’’جید“ کہنا قطعاً صحیح نہیں۔
◈ اس کی سند میں ام عون بھی ’’مجہولہ “ ہیں۔
◈اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ’’مقبولہ “ کہا ہے۔ [تقريب التهذيب
لابن حجر : 8750]
◈حافظ بوصیری [مصباح الزجاجة : 52/2] اور سندھی حنفی [حاشية السندي على ابن
ماجة : 1611] نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے۔
◈ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا الحديث منكر، وفيه غير واحد من المجاهيل .
’’یہ حدیث منکر ہے اس میں کئی ایک مجہول راوی ہیں۔ “ [تاريخ دمشق : 314/42]
——————
روایت نمبر: 3
سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب ہے :
إن النبى أوحي إليه، فستره على بثوبه، حتٰي غابت الشمس، فلما سري عن
النبي، قال : ’يا علي، صليت العصر ؟‘، قال : لا قال : ’اللهم اردد الشمس
علٰي علي‘، قالت : فرجعت الشمس حتٰي رأيتها فى نصف الحجر، أو قالت : نصف
حجرتي
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور سیدنا علی
رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھانپ رکھا تھا،
یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی سے فارغ
ہوئے، تو پوچھا : علی ! کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا
: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ ! علی کے لئے سورج کو
لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : سورج واپس
پلٹا یہاں تک کہ اس کی روشنی میرے حجرے کے صحن کے درمیان میں آن پہنچی۔ “
[تاريخ دمشق لابن عساكر : 314/42، الموضوعات لابن الجوزي : 356/1، اللآلي
المصنوعة للسيوطي : 338/1]
تبصره :
یہ باطل سند ہے، کیونکہ :
➊ اس کاراوی ابوالعباس ابن عقدہ ’’ضعیف “ ہے۔
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف “ کہا ہے۔ [السنن : 264/2]
◈ حمزہ بن یوسف سہمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
سمعت أبا عمر بن حيويه يقول : كان أحمد بن عقدة فى جامع براثا يملي مثالب
أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو قال : الشيخين، يعني أبا بكر
وعمر، فتركت حديثه، ولا أحدث عنه بعد ذٰلك شيئا .
’’میں نے ابوعمر بن حیویہ کو یہ کہتے سنا کہ احمد بن عقدہ براثا کی جامع
میں صحابہ کرام یا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عیوب لکھواتا تھا۔ اس پر
میں نے اس کی روایت چھوڑ دی۔ اس کے بعد میں اس سے کوئی چیز بیان نہیں کرتا۔
“ [سؤالات السهمي : 166]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان صاحب معرفة وحفظ، ومقدما فى هٰذه الصناعة؛ إلا أني رأيت مشايخ بغداد
مسيئين الثنائ عليه .
’’یہ بڑا عالم، حافظ اور اس فن میں مقدم تھا، مگر میں نے بغداد کے مشائخ کو
دیکھا کہ وہ اس پرجرح کرتے ہیں۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 206/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان رجل سوء . ’’یہ برا آدمی تھا۔ “ [تاريخ بغداد للخطيب : 22/5، وسنده
صحيح]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا :
أيش أكبر ما فى نفسك عليه ؟
’’کیا آپ کے ذہن میں اس کی کوئی اچھائی ہے ؟“
تووہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے، پھر فرمایا :
الـأكثر من المناكير . ’’اس کی اکثر روایات منکر ہیں۔ “ [تاريخ بغداد :
22/5، وسنده صحيح]
◈ ابن عقدہ نے عبدالغفار بن القاسم ابومریم کی تعریف میں مبالغہ کیا، تو
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا :
وابن سعيد (ابن عقدة) حيث قال، هٰذا الميل الشديد إنما كان لإفراطه فى
التشيع .
’’ابن سعید (ابن عقدہ ) نے یہ انتہا کا میلان اس لیے ظاہر کیا ہے کہ وہ خود
غالی شیعہ ہے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 327/5]
◈حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه ضعف . ’’اس میں کمزوری ہے۔ “ [سير أعلام النبلاء : 341/5، 342]
◈ نیز ابن خراش اور ابن عقدہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
وفيهما رفض وبدعة .
’’ان دونوں میں دشمنی صحابہ اور بدعت موجود ہے۔ “ [ميزان الاعتدال : 128/1]
◈ مزید فرماتے ہیں :
شيعي، وضعفه غير واحد .
’’یہ (رافضی ) شیعہ ہے اور اس کو کئی ایک محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “
[المغني فى الضعفاء : 55/1]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فابن عقدة متهم، فإنه رافضي خبيث .
’’ابن عقدہ متہم راوی ہے، کیونکہ یہ خبیث رافضی ہے۔ “ [جامع المسانيد
والسنن : 524/5]
اگر کوئی کہے کہ ابن عقدہ اس سند میں منفرد نہیں، بلکہ شاذان فضلی کے استاذ
ابوالحسن علی بن ابراہیم بن اسماعیل بن کعب دقاق نے اس کی متابعت کی ہے۔
[اللآلي المصنوعة للسيوطي : 338/1]
تو اس سے پوچھا جائے کہ شاذان فضلی کس مصیبت کا نام ہے ؟ اس کے استاذ
ابوالحسن علی بن ابراہیم کے بھی حالات زندگی نہیں مل سکے۔
بعض لوگ اسے علی بن اسماعیل بن کعب، جس کا ترجمہ (حالاتِ زندگی ) تاریخ
بغداد للخطیب [345/11] میں ہے، سمجھتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔ اگر یہی
مراد لیاجائے، تو یہ بھی ’’مجہول “ ہے۔
اسے ازدی نے ثقہ کہا ہے۔ [تاريخ بغداد للخطيب : 258/13، طبعة بشار]
لیکن ابوالفتح محمد بن الحسین ازدی بے چارہ خود ’’ضعیف “ ہے۔ کوئی ’’ضعیف “
کسی کو کیسے ثقہ کہہ سکتا ہے ؟یوں یہ متابعت سرے سے ثابت ہی نہیں ہے۔
شاذان فضلی نامعلوم کی سند میں علی بن جابر اودی بھی ’’مجہول “ ہے۔
➋ اس روایت کا دوسرا راوی عبدالرحمٰن بن شریک ہے۔
◈ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے واهي الحديث (کمزور) کہا ہے۔
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 244/5]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ اسے اپنی کتاب [الثقات : 375/8] میں ذکر کرنے کے
بعد فرماتے ہیں :
ربما أخطأ .
کبھی کبھی غلطی کر جاتا ہے۔ “
(لہٰذا امام حاکم [33/2] کا اس کی ایک روایت کو صحيح على شرط مسلم کہنا،
حافظ ہیثمی [مجمع الزوائد : 68/8] کا اسے ثقہ قرار دینا اور حافظ ابن حجر
رحمہ اللہ [تقريب التهذيب : 3893] کا اسے ’’صدوق “ کہنا امام ابوحاتم رازی
رحمہ اللہ جیسے جمہور ائمہ کی جرح کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہے۔ اس پر ضعف
ہی غالب ہے۔
➌ عبدالرحمٰن یہ روایت اپنے باپ شریک بن عبداللہ القاضی سے بیان کر رہا ہے۔
شریک القاضی راوی جب کوفہ میں عہدۂ قضا پر فائز ہوئے، تو ان کا حافظہ جواب
دے گیا تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ ان کے بیٹے عبدالرحمٰن بن شریک نے یہ روایت
اپنے والد سے ان کا حافظہ بگڑنے سے پہلے سنی تھی یا بعد میں۔
فرماتے ہیں : اسی لیے حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا حديث باطل، أما عبد الرحمٰن بن شريك عن أبيه؛ فقال أبو حاتم
الرازي : هو واهي الحديث، قلت : و [ أما ] أنا؛ فلا أتهم بهٰذا إلا ابن
عقدة، فإنه كان رافضيا، يحدث بمثالب الصحابة .
’’یہ حدیث باطل ہے۔ عبدالرحمٰن بن شریک اپنے باپ سے بیان کرتا
ہے۔ اس کے بارے میں امام ابوحاتم رازی فرماتے ہیں : وہ کمزور روایات
بیان کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں : میرے خیال میں صرف ابن عقدہ ہی اس
روایت کو گھڑنے والا ہے، کیونکہ وہ رافضی ہے اور صحابہ کرام کے عیوب بیان
کرتا ہے۔ “ [الموضوعات : 356/1]
——————
روایت نمبر: 4
سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی سے منسوب ہے :
لما كان يوم خيبر شغل على بما كان من قسمة الغنائم، حتٰي غابت الشمس، فسأل
النبى عليا؛ ’هل صليت العصر؟‘ قال : لا، فدعا الله، فارتفعت حتٰي توسطت
المسجد، فصلٰي علي، فلما صلٰي؛ غابت الشمس، قال : فسمعت لها صريرا كصرير
المنشار فى الخشبة .
’’خیبر کے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ مالِ غنیمت کی تقسیم میں مشغول رہے،
حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی
اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا :
نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور سورج بلند ہوتا ہوا
مسجد کے درمیان میں آ گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، تو سورج
کے غروب ہونے کی آواز میں نے سنی جیساکہ کسی لکڑی میں آرا چلایا جاتاہے۔ “
[أخرجه أبو الحسن شاذان الفضلي، [كما فى اللآلي المصنوعة للسيوطي :
340/1] ، وأبو القاسم عبيداللہ بن عبداللہ الحسكاني [كما فى منهاج السنة
النبوية لابن تيمية : 191/4] ، البداية والنهاية لابن كثير : 90/6]
تبصره :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
➊ صاحب کتاب ابوالحسن شاذان فضلی کے حالات نہیں مل سکے۔
➋ اس کے راوی صباح بن یحییٰ کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيه نظر . ’’یہ مجہول راوی ہے۔ “
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو شيعي، من جملة شيعة الكوفة .
’’یہ کوفہ کے شیعوں میں سے ہے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 84/4]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك، بل متهم . ’’یہ متروک بلکہ متہم بالکذب راوی ہے۔ “ [ميزان الاعتدال
: 306/2]
◈ ابن عراق رحمہ اللہ کہتے ہیں :
شيعي، متروك، متهم .
’’یہ شیعہ، متروک اور متہم بالکذب راوی ہے۔ “ [تنزيه الشريعة : 67/1]
اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
➌اس کے استاذ محمد بن صبیح دمشقی کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
➍ عبداللہ بن الحسین بن جعفر
➎ حسین مقتول
➏ فاطمہ بنت علی
➐ ام الحسن بنت علی
ان سب راویوں کا تعارف اور ان کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
تفصیل ان شاء اللہ جاری ہے
|