کسی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کی نوجوان نسل پر ہوتا
ہے کیونکہ یہ نوجوان خون کسی بھی ادارے کی اہم ضرورت ہوتا ہے مستقبل میں
اہم عہدوں پر فائز ہو کر اسی نسل کو ستون کی مانند مضبوط تیار کرنا ایک اہم
اصول ہے، تجربہ اور قابلیت کی دھار نوجوانوں کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے یہ
سب کچھ ایک دھارے کی صورت میں بہتا جاتا ہے ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور
ہوتا رہے گا۔ ہمارے ملک کے سیاسی ادارے اس اہمیت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ
جزباتی اور پُرش طبقہ ان کےلئے کس قدر اہمیت رکھتا ہے جسے کسی بھی ٹریک پر
ڈال کر اپنی سیاسی کاروائیوں کو مضبوط اور بالا تر بنایا جاسکتا ہے۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں نوجوان نسل ہمیشہ ملکی تحریکوں میں اپنا ایک اہم
کردار ادا کرتی رہی ہے، پر بد قسمتی سے ہمارے ملک کے حالات اس قدر پیچیدہ
اور دشوار ہونے لگے ہیں کہ نوجوان نسل نے اپنی صلاحتوں کا لوہا منوانے کے
لئے ملک سے باہر کا رخ کرنا شروع کردیا ہے، پہلے تو محض زیادہ کمائی کرنے
کے زمرے میں آتا تھا مگر اب اس دور میں یہ ملک کے پیچیدہ، بدتر اور دشوار
حالات کے باعث پیدا ہوا ہے ملکی حالات ملکی مسائل کے پیشِ نظر ہمارے
ڈاکٹرز، انجینئرز، سرجنز، معلم اور دیگر پیشوں کے تعلق رکھنے والے ملک سے
باہر کا رخ کر رہے ہیں۔
والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے ہر ایک بچے کو ہائیر ایجوکیشنل سسٹم، اکیڈمی،
کالج اور یونیورسٹی سے تعلیم دلواتے ہیں تاکہ اسکا مستقبل روشن ہو، وہ ان
کا سہارا بننے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک وقوم کا بہترین اثاثہ بن سکے، پر
افسوس کے ساتھ یہ پڑھتا یے کہ انہی نوجوانون کے لئے ملکی حکام کی جانب سے
کوئی خاص ردِ عمل ہوتا دیکھائی نہیں دیتا، یہاں ہمیں کہی پڑھے لکھے نوجوان
ایسے ملتے ھیں جن کے پاس تعلیم، تجربہ اور ڈگریاں تو موجود ہیں پر ان کے
معیار کے مطابق کوئی روزگار میسر نہیں، پھر۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں ہمارے نوجوان
ایجنسوں کا نشانہ کیسے نہ بنے؟ اپنے ملک پاکستان میں رہ کر بھاری رقوم ادا
کرنے کے بعد ایجنسیوں کے ذریعے دیگر ملکوں کے ویزے کی سہولت با آسانی میسر
ہو جاتی ھے، یہ نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں لئیے سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے
اپنی زندگی کے سفر کی شروعات کرتے ہیں اور اپنے ہی ارمانوں کو لیئے خون سے
لہولہان ہوجاتے ھیں، ایسا کیوں نہ ہو آخر ہمارے ان جوانوں کے ساتھ؟؟؟ مشرقی
ممالک میں پاکستانی جوان بڑے بڑے ٹرالر چلا کر، یخ بستہ موسم میں برف ہٹا
کر، سخت دھوپ میں تعمیراتی کام کرنے کے بعد چند ہزار ڈالر کماتے ہیں، جس کے
پیشِ نظر اپنی قابلیت، تجربہ اور ڈگریاں دھوپ، برف پیٹرول اور ٹرالر کے بڑے
بڑے پہیوں تلے روند تے یہ زہریلا زہر پیتے ہیں، پھر۔۔۔۔۔۔۔۔ محنت سے کیا
شرمانا۔۔۔۔۔ یہ قول ہمارے پاکستانی جوانوں کو ملک سے باہر کا کر دیتا ہے۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے جسے ہم دیکھنا پسند نہیں کرتے، ہمارا پڑھا لکھا
نوجوان اپنے ملکی حالات مہنگائی، بے روزگاری، دہشگردی، دھرنوں، بجلی، پانی
جیسے مسائل سے دل برداشتہ ہوکر باہر ملکوں میں ڈرائیونگ، پیٹرول پمپوں کی
صفائی، گارئیوں کے شیشے صاف اور یخ بستہ موسم میں گھروں کر آ گے سے برف
ہٹانے جیسے کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے جبکہ خواتین کا حال اس سے کہیں بدتر
ھے، پر بے حد افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہے کہ ہماری حکومت، اعلٰی حکام،
وزراہ نوجوان نسل کے لئیے کچھ اقدام، نئی ملازمتیں، نئے مواقع میسر ہی نہیں
کرنا چاہتی۔۔۔۔ اپنے ہی مسائل سے دو چار حکومت ملکی عوام اور نواجوان نسل
کے لئے خاک اقدام پیش کرے گی۔
میرا مقصد اپنے بلاگ کے ذریعے تمہید باندھنا نہیں ھے، لیکن۔۔۔۔۔۔ بات صرف
اتنی ہے آخر ہم اپنے قابل اہل اور تجربہ کار انجینئرز، ڈاکٹرز، سرجنز،
معلم، منتظم اور نوجوانوں کو کب تک اس طرح کھوتے رہیں گے؟؟؟ کیا انہیں وہ
عزت، جانی ومالی تحفظ، ملازمتیں نئے مواقعے کبھی نصیب ھوگا؟ جسکی تلاش میں
وہ اپنوں سے دور باہر ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ ھم بھول رہے ھیں کہ نوجوان
ہمارا اثاثہ ہیں اثاثہ بیچنے والے ترقی نہیں کرتے بلکہ ترقی کرنے والوں کو
ٹُکر ٹُکر تکتے رہتے ھیں۔ |