ان تینوں فیصلوں سے ایک بات ہمارے ان سیاستدانوں ، چوروں
اور کرپٹ مافیاکو ضرور سوچنا چاہیے کہ آج نہیں تو کل ان سے پوچھا جاسکتا ہے
اور ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے ان کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے اور ان
کو سز ابھی ہوسکتی ہے ۔ سزا سے مراد جیل ہے جو آج تک بڑے مافیاز کو نہیں
ہوئی ہے لیکن یہ بھی ایک روشن مستقبل کیلئے اچھی نوید ہے کہ کم ازکم اب بڑے،
دولت مند اور اثرو رسوخ والے افراد سے بھی پوچھا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے عمران خان کیس کی بات کرتے ہیں جس کو سپریم کورٹ نے مسترد کیا
اور عمران خان کو صاد ق اور آمین قرار دیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایک
تو عمران خان پاکستان سے باہر پیسہ نہیں لے کرگیا بلکہ پاکستان کے اندر
لایا اور ان کی انکم پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وہ اپنے دور کا ایک بہترین
کھلاڑی تھا جب کہ آج بھی وہ گھنٹے دو گھنٹے کے چار پانچ کروڑ روپے صرف
انٹرویو دے کرکما سکتا ہے جو کہ انہوں نے ایک دفعہ کیا بھی ہے۔ دوسرا عمران
خان نے 1981-82میں لندن میں 60لاکھ کا فلیٹ لیا جو کہ برطانیہ قانون کے
مطابق آفشور کمپنی بنا کرلیا ۔وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ برطانوی شہری نہیں
تھا ، دوسروں کی طرح انہوں نے وہاں کی سٹیزن شپ حاصل نہیں کی تھی ۔عمران
خان حکومت میں آج تک نہیں رہاہے جس وقت کی یہ بات ہے اس وقت وہ ممبر اسمبلی
بھی نہیں تھا ۔ ان پر اعتراض ہی غلط تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں فلیٹ بھیج
کر دولت پاکستان کیوں لایا اور اپنی بیوی جمائم خان سے پاکستان میں قرض لے
کر بنی گالہ زمین خریدی اور فلیٹ بھیج ان کو رقم واپس کی ۔ اس قرض کو نون
لیگ نے میاں بیوی کے درمیا ن لینے دینے کو عدالت پہنچایا اور عدالت میں
عمران خان نے اپنی 40سالہ دولت ، بنک میں حساب کتاب اور جمائم خان کا قرض
سمیت تمام ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کیا۔ ہم جیسے صحا فیوں کی نظر میں اس
درخواست کو دوسرے دن ہی ڈس مس کرنا چاہیے تھا لیکن عدالت نے اس پر پچاس دن
کیس لگایا لیکن اﷲ کا نظام ہی نرالہ کہ اب عمران خان کو سپریم کورٹ کی طرف
سے صاوق اور امین کی سرٹیفیکیٹ مل گئی جو پاکستان کے عوام نے پہلے سے دے
رکھی تھی کہ ہرسال اربوں روپے شوکت خانم اور نمل یو نیورسٹی کو دیتے ہیں۔
دوسری طرف جانگیر ترین اور نواز شریف کا کیس ہے ۔ جانگیر ترین پر دو قسم کے
کیس تھے ایک تھا کہ انہوں نے قرض معاف کرائے اور مشرف دور میں انہوں نے کچھ
شیئرز اپنے نوکروں کے نام پر لیے اور دوسرا تھا کہ انہوں نے بیرونی ملک
جائداد اپنی بچوں کے نام پر بنائی ۔ پہلے کیس میں جانگیرترین نے اس وقت
الزام لگنے پر شیئر ز واپس بھی کیے اور جرمانہ بھی ادا کیا جس کا ذکرفیصلے
میں ہوا ہے کہ جانگیر ترین نے اس پر معافی بھی مانگی کہ یہ اگرجرم تھا تو
اس پر میں نے جرمانہ ادا کیا ۔ دوسرا جانگیر ترین کو جس بنیاد پر نا اہل
کیا گیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے بیرونی ملک جائداد بیٹوں کے نام پر کیوں کی ،
اپنے نام پر کیوں نہیں کی تھی جو کہ انہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر بھی
کیا۔یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ جانگیر ترین جو دولت باہر ملک لے
گئے ہیں وہ پاکستانی قانون کے عین مطابق ہے اس میں کوئی غلطی نہیں اس پر
پورا ٹیکس بھی ادا ہوا ہے ۔ دوسرا جانگیر ترین ملک کا سب سے امیر ترین ممبر
اسمبلی رہا ۔ وہ سالانہ اربو ں ٹیکس دیتا ہے ۔ گزشتہ سال انہوں نے اپنا
ذاتی ٹیکس 30کروڑ ادا کیا جبکہ کاروبار کا 70کروڑ سے زیادہ ادا کیا۔ ہرسال
وہ اسی طرح ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ان کے شوگرملز بھی کسانوں کو پورا ریٹ
دیتا ہے۔
اس طرح میاں نواز شریف کا کیس بھی ہے کہ انہوں نے لندن میں جو فلیٹ اور
جائدادی بنائی اس پر ان کو ناہل کیا گیا۔ تینوں میں فرق یہ ہے کہ عمران خان
لندن سے پاکستان پیسہ لایا ۔ جانگیر ترین جو ملک کا امیر ترین آدمی ہے اپنی
کچھ پیسوں سے وہا ں جائداد بنائی لیکن میاں نواز شریف جس کی حکمرانی 30سال
پر محیط ہے اور تین دفعہ وزیراعظم رہا اور تمام کالے اور سفید کا مالک بنا۔
انہوں نے جو جائداد 22ممالک میں بنائی ، ان جائداد سے ناصرف انکاری ہے بلکہ
جو پیسہ باہر بھجوایا اس پر ٹیکس بھی ادا نہیں کیا اور نہ ہی بنک کے ذریعے
بھجوایا۔ نواز شریف کاٹیکس پانچ ہزار اور جانگیرترین کا سالانہ ٹیکس
30کروڑ۔ فرق واضح ہے کہ میاں صاحبان نے کبھی ٹیکس دیا ہی نہیں اور ساری
دولت بیرونی ملک جمع کی ہے۔
بعض تجز یہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ جانگیر ترین کو کورٹ نے صرف نواز شریف
کے ساتھ فیصلہ برابر کرنے کیلئے نااہل کیا حالانکہ ان کا کیس نواز شریف سے
کافی الگ ہے۔ یہ تاریخ بتائی گی کہ جانگیر ترین کو صحیح نااہل کیا یا فیصلہ
برابر کرنے کیلئے لیکن ایک حقیقت تو دنیا میں موجود ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہر
کام میں کوئی مصلحت ہوتی کہ جانگیرترین بھی ناہلوں کی فہرست میں شامل
ہوگیا۔شاید یہ آنے والے وقت میں خود تحریک انصاف کے لئے اچھا ثابت ہوجائے
کہ جو جہاز عمران خان اور پارٹی کی دوسری قیادت استعمال کرتی تھی جس کا
کرایہ پارٹی سے جاتا تھا لیکن عام تاثریہ بنایا گیا کہ جانگیر ترین عمران
خان کے اے ٹی ایم ہے ۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اس اے ٹی ایم کے بند ہونے سے
پارٹی مضبوط ہوتی ہے یا پارٹی کمزور اور پارٹی کو اقتصادی مسئلہ درپیش ہو
تاہے ۔ اس کیلئے بھی ہمیں آنے والے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ بحرحال جو
بھی ہوتا ہے ہمیشہ اچھے کیلئے ہی ہوتا ہے۔قوم کو عمران خان ۔ جانگیرترین
اور میاں نواز شریف کے کیسوں اور فیصلوں میں فرق کو خود سمجھنا چاہیے ۔
|