اس جنت کو سنوارنے والوں کا شکریہ!

سال ۲۰۱۷ء کا سورج بھی ڈوبنے والا ہے۔ ایسے میں وطنِ عزیز کے عوام کی اہم ذمہ داری ہے کہ ان سب رہبروں کا شکریہ ادا کیا جائے کہ جن کے طفیل ہر شعبہ ہائے زیست میں انقلابی سطح کی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں اور وطنِ عزیز دنیا میں وقار کی علامت بن چکا ہے۔ سب سے پہلے علما کا شکریہ ادا کرنا فرض ہے کہ جن نے عوام کی علمی و ادبی رہنمائی میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔ عوام کی اخلاقی تربیت ایسی مضبوط بنیادوں پہ کی گئی ہے کہ شیطان ایک ہاتھ میں اپنی گٹھری اور دوسرے ہاتھ میں جوتے تھامے بھاگا ہے۔ وطنِ عزیز میں بھائی چارہ فروغ پا چکا ہے۔ نفرت اور تعصب کجا اب تو انسانوں میں کوئی اختلاف بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ مسلم، ہندو، عیسائی، سکھ سبھی نے رواداری اور مساوات کی اعلیٰ مثالیں قائم کر رکھی ہیں اور ایسا صرف ہمارے علما کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جنھوں نے لوگوں کو بتایا ہے کہ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرو۔ ایک دوسرے سے محبت سے پیش آؤ۔ کسی کے عقائد پہ ممتحن نہ بنو کہ یہ اﷲ کا ہی کام ہے اور وہی کرے گا۔ اب علما کے ایسے کردار اور حاصل کردہ نتائج پہ ان کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے۔ ورنہ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہان علما منبر و محراب کے ذریعے نفرت و تعصب بانٹتے ہیں۔ بازار میں نئی گالیاں متعارف کرواتے ہیں اور اختلافِ فکر رکھنے والوں سے ایمان کی سند کے طور سے کلمہ پڑھواتے پھرتے ہیں۔ اور تو انبیا اور اصحاب سے لغو واقعات بھی منسوب کرتے ہیں۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے دھرنے دیتے ہیں اور ایسے خطابات سے بلا امتیاز عمر و جنس عوام کو محظوظ کرتے ہیں جن کے سامعین بالغان بھی ہوں تو شرم سے پانی پانی ہو جائیں۔ اور ایسے ہی علما جب کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اس کی پیشانی پہ ’’بسم اﷲ‘‘ بھی غلط لکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ خود کو دینی علم کا ماہر گردانتے ہیں۔ سو آئیے اپنے بے ضرر علما کا شکریہ ادا کریں کہ جو ایسی تمام قباحتوں سے آزاد قوم کی تعمیر میں مصروفِ عمل ہیں۔

کوئی ناشکرا ہی ہو گا جو سیاستدانوں کی اہمیت اور ان کے کردار سے انکار کرے گا۔ وطنِ عزیز کی سیاست نے دنیا میں نئے رجحانات کو فروغ دیا ہے۔ اس وقت جب کہ دوسرے ممالک میں لوگ نسلی، لسانی بنیادوں پہ سیاست زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ لوٹ مار اور دشنام طرازی کی تہذیب پنپ رہی ہے۔ ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ دوسروں کے حرم میں جھانکا جا رہا ہے۔ ایسے میں فقط وطنِ عزیز ہی وہ واحد جگہ ہے کہ جہاں سیاست کو عبادت کا درجہ مل گیا ہے۔ سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کی روایت کو دفن کر دیا ہے۔ سب مل کر ملک کی ترقی و بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کوئی کسی خفیہ ایجنڈے پہ کام نہیں کر رہا اور نہ ہی کسی کی پشت پہ کوئی کاروباری، آہنی یا آئینی ہاتھ موجود ہے۔ بیسیوں منصوبے تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ ایوان میں سیاستدانوں کی حاضری دنیا کے کسی بھی ایوان کے تناسب سے زیادہ ہے۔ دونوں ایوان عوامی نمائندوں کی موجودگی کے گواہ ہیں اور ایوانوں میں مباحث کے لیے جس اصول پسندی اور شائستگی کو ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے اسے دیکھ کر اپنے نمائندوں پہ ملائک کا گماں ہونے لگتا ہے۔ نمائندگان کی پاکبازی کا یہ عالم ہے کہ عدالتوں میں ان کے ناموں پہ حلف لیے جانے لگے ہیں۔ ان کی شبانہ روز خدمات کے تحت ملک میں کوئی شخص بے روزگار نہیں رہا۔ یورپ و امریکہ سے لوگ ہمارے دیس میں ملازمتوں کے حصول کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ملک میں توانائی کے ضیاع سے بچنے کے لیے ہمسایہ ممالک کو مفت توانائی فراہم کرنے کے منصوبوں پہ کام ہو رہا ہے۔ ہماری زراعت اتنی پھل پھول رہی ہے کہ دیگر ممالک کو خوراک کی مد میں امداد فراہم کرنے میں ہم سب سے آگے ہیں۔ حزبِ اقتدار و اختلاف نے باہمی اشتراک سے جو منصوبے بنائے ہیں ان کی گونج دنیا بھر میں سنی جا رہی ہے۔ ایسے میں ان سیاستدانوں کا شکریہ ادا کرنا عوام کا فرض بنتا ہے۔ ناشکرا نہیں بننا چاہیے اور ان ممالک سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ جہاں مفلسی نے ڈیرے جما رکھے ہیں اور جن کے سیاستدان عیاشیوں کے ریکارڈز میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ جہاں ایک ہی گھر کے تین افراد تین مختلف جماعتوں میں شریک ہوتے ہیں اور ایک کے بازی جیت لینے سے باقی دو بھی خوشحال ہو جاتے ہیں۔ اور جو عوام کو تقسیم کرنے کے ہنر بخوبی جانتے ہیں اور اپنے پروٹوکول کی خاطر عوام کو جانوروں سے بھی بدتر حالات میں دھکیل دیتے ہیں۔

ہمیں اپنے محافظوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ جن کی وجہ سے ملک میں امن و امان کا بول بالا ہے۔ یہاں کسی کو اپنی جان کی فکر لاحق نہیں رہی۔ کسی کو یہ دھڑکا نہیں کہ وہ صبح گھر سے نکلے گا تو شام لوٹے گا بھی یا نہیں۔ ہماری افواج نے اپنے شاہین جرنیلوں کی سربراہی میں ملک کے کونے کونے میں امن و سلامتی کی شمعیں روشن کر دی ہیں۔ دہشت گردی کا لفظ بھی اس وطن کی فضا سے نامانوس ہے۔ یہاں سب عبادت گاہیں مصروف ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا پورے اطمینان کے ساتھ حصولِ علم میں مشغول ہیں۔ ہمارے جرنیلوں کی جری قیادت کا اثر ہے کہ اب دنیا امن کے لیے ہماری خدمات حاصل کر رہی ہے۔ ہماری افواج دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور دہشت گرد جس ملک میں بھی پائے جاتے ہیں وہاں ان کی کمر ایسے توڑ رہی ہیں کہ انھیں دوبارہ اٹھنے کا موقع بھی نہیں مل سکتا۔ ہمیں اپنے جرنیلوں کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی سربراہی میں ہم سکون کا سانس لے رہے ہیں۔ ورنہ ہمسایہ ممالک میں تو دہشت گردی اتنی پھیل چکی ہے کہ وہاں ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ وہاں کی افواج کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کہاں سے دہشت گرد حملہ آور ہوتا ہے اور کہاں کو لوٹ جاتا ہے۔ اور تو اور ہمسایہ ممالک کی افواج کے سربراہان تو اپنی کوتاہی چھپانے کے لیے عوام کو طرح طرح کے قصے کہانیاں سنا کر عوامی توجہ اپنی کارکردگی سے ہٹا کر کسی اور جانب لگانے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ اور پھر ان ممالک میں تو فوج کے جرنیل کو خدا سمجھا جاتا ہے جس سے سوال نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی نادان سوال کرتا ہے تو اس کی جان کی ضمانت کوئی نہیں دیتا کیونکہ وہ خود فرماتے ہیں کہ کسی کو ہمارے بارے بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسی لیے تو وہاں لوگ غائب کر دیے جاتے ہیں۔ تو پھر دوستو اپنی افواج اور خاص کر جرنیلوں کا شکرگزار بنو کہ ان نے تو تمہیں بہت لاڈ میں رکھا ہوا ہے۔ نہ کوئی جان کا خطرہ نہ اغواہ کا خدشہ۔

پولیس اور عدلیہ کا شکریہ کیسے بھولا جا سکتا ہے کہ یہ تو خود مختاری کی علامت ہیں۔ آج پاکستان میں منصف کئی کئی گھنٹے خالی کمروں میں بیٹھ کر گھر لوٹ جاتے ہیں مگر کوئی سائل ان کے در پہ دستک نہیں دیتا۔ ملک میں انصاف اتنا عام ہو چکا ہے کہ نہ کوئی درخواست تھانے میں جاتی ہے اور نہ ہی کوئی مقدمہ عدالت میں۔ عوام کی خوشحالی نے تھانے والوں کو کرسی توڑنے کا وافر موقع دے رکھا ہے۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے ایوان میں ایک درخواست دی کہ ہمارے لوگوں کو دوسرے محکموں میں لگا دیا جائے کیونکہ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے محروم ہیں۔ اس حوالے سے ایوانِ بالا نے ایک کمیٹی بھی ترتیب دے رکھی ہے جو سفارشات کا جائزہ لے رہی ہے۔ جب ملک میں نہ چور ہوں نہ ڈاکو۔ لوگوں کا شعور اتنا ترقی یافتہ ہو چکا ہو کہ انھیں جائز و ناجائز کی تمیز کے لیے آگاہی دینے کی بھی ضرورت نہ رہے تو ایسے میں کون پولیس و عدلیہ کی جانب دیکھے گا؟؟ وکلا نے بھی اسی لیے دوسرے محکموں کا رخ کر لیا۔ کسی نے عماراتی لین دین کا کام شروع کر دیا اور کسی نے اسٹاک مارکیٹ میں کرسی اور ٹیلی فون سنبھال لیا۔ کچھ وکلا ایسے بھی ہیں جنھوں نے منصفوں کے ساتھ شادی دفاتر میں معاونت شروع کر رکھی ہے۔ سو ایسے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے ورنہ دیگر ممالک میں تو پشتیں گزر جاتی ہیں عدالتوں میں تاریخیں بھگتنے میں اور پولیس خود ڈاکو اور چور کے فرائض ادا کرنے لگتی ہے۔ اور تو اور ان ممالک میں منصفین اپنے خطابات میں قسمیں اٹھا اٹھا کر لوگوں کو اپنی منصفی کا یقین دلاتے ہیں لیکن عوام اعتبار نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے منصفین کی حالت ایسی ہے کہ کسی کو سینے سے لگانا چاہتے ہیں اور کسی کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتے خواہ اس کی بنیاد کوئی علاقائی ہو یا مذہبی۔

اگر اپنے ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا شکریہ ادا نہ کیا گیا تو یہ ایک بڑی زیادتی ہو گی۔ کیونکہ ہماری ترقی میں ذرائع ابلاغ کا خاص کردار ہے اس نے سنسنی اور ’’ریٹنگ‘‘ کو نظرانداز کر کے صرف سچ دکھانا جاری رکھا اور معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ جبکہ ہمارے ملک میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں نے دنیا بھر کے کمزوروں کو ان کے حقوق دلانے میں کامیاب کردار ادا کیا۔ اور اگر دیگر ممالک کی جانب دیکھا جائے تو وہاں کے ذرائع ابلاغ آج بھی پیسہ، ریٹنگ اور اشاروں کی بنیاد پہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ دانش ور کے ’’ٹیگ‘‘ کے ساتھ مسخروں کو کئی کئی گھنٹے عوام سے براہِ راست خطاب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ مخالفین کی کردار کشی کے لیے ہر حربہ بخوبی اختیار کیا جاتا ہے اور اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انھیں لوٹا جاتا ہے۔ اور ایسے ممالک میں موجود انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی منتخب معاملات ہی میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور سامنے کچھ اور اور پیچھے کچھ اور کے نظریہ پہ کارفرما رہتی ہیں۔ کسی کھاتے پیتے گھرانے کے معمولی مسئلہ کو عالمی مسئلہ بنانے میں دیر نہیں لگاتیں لیکن کسی غریب کے غیر معمولی مسئلہ کو نظرانداز کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سو ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم ایسے ملک میں ہیں جسے جنت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ آئیے اس جنت کے ان سب کرداروں کا شکریہ ادا کریں کہ جن نے اپنی محنت اور لگن سے اسے سنوارا ہے۔

Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 17857 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.