2017 میں پاکستانی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سرگرم سوشل
میڈیا سیلز نظر آئے، چاہے سیاسی جماعتوں کے ہوں یا 'اداروں' کے۔ پاکستانیوں
کی سیاست میں دلچسپی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال،
سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بمقابلہ ہیش ٹیگ کی صورت میں نظر آیا مگر اس ساری
جنگ میں حقیقی کیا تها اور مکینیکل کتنا تها،
یہ فیصلہ کرنا
زیادہ مشکل
نہیں۔
|
|
سیاست میں اس سال کا سب سے اہم موضوع سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی
اولاد کے خلاف پاناما پیپرز سے متعلق کیس اور پھر وزیراعظم کی نااہلی کا
موضوع رہا اور صرف پاناما پیپرز کے حوالے سے ہی سوشل میڈیا پر ’مجهے کیوں
نکالا`، ’قطری خط`، ’پاناما کیس`، ’گاڈ فادر`، ’کیلیبری`، ’فونٹ گیٹ`، اور
’جسٹس ڈینائیڈ` کے ہیش ٹیگز نمایاں طور پر ٹرینڈ کرتے نظر آئے۔ اس کے علاوہ
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے منحرف ہونے والے
ترجمان احسان اللہ احسان کا ویڈیو اعترافی بیان، ایم کیو ایم کا کراچی اور
لندن کے درمیان بٹوارہ اور عائشہ گلالئی کا عمران خان پر ہراساں کیے جانے
کا الزام سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موضوع بحث رہے۔
مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نیوز چینلز پر براہ راست انٹرویو
دیتے ہوئے کم اور ٹوئٹر پر زیادہ سرگرم نظر آئے۔ ٹوئٹر اور فیس بُک کی
سیاستدانوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت پر بات کرتے ہوئے سماجی کارکن جبران
ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا اب بڑی حد تک روایتی میڈیا کے
ساتھ ہی کھڑا ہے۔
اب کسی رہنما کے خطاب کے بارے میں جانچنے کے لیے رات نو بجے کے خبرنامے یا
صبح اخبار کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ کسی بھی ٹی وی چینل یا ریڈیو کو
انٹرویو دینے سے پہلے سیاستدان اپنا بیان یا ردعمل ٹویٹ کردیتے ہیں۔
|
|
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد پر مذہبی جماعتوں نے تین
ہفتے دھرنا دیا۔ دھرنے کے دوران جہاں مذہبی تنظیم لبیک یا رسول اللہ کے
سربراہ خادم حسین رضوی کی تقاریر، انداز بیان اور الفاظ کا انتخاب سوشل
میڈیا پہ موضوع بحث بنے وہیں دھرنے کے اختتام پہ ڈی جی رینجرز کی جانب سے
لفافے تقسیم کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پہ خوب شیئر کی گئی جس پر فوج اور
سکیورٹی اداروں پر شدید تنقید ہوئی۔
ضرار کھوڑو نجی نیوز چینل پہ پیش کیے جانے والے پروگرام کے میزبان ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں سماجی رابطوں کی ویب
سائیٹس کی مقبولیت کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی موبائل فون کنیکٹیوٹی ہے وہیں نجی
ٹیلی وژن نیوزچینلز خود بھی کسی حد تک ذمہ دار ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی وژن نیوز چینلز غیر جانبدار نہیں رہے۔ ’لوگ جانتے ہیں
کہ اگر انھیں حکومت کی حمایت میں بات سننی ہے تو انھیں کس چینل پہ جانا ہے
اور اگر حکومت کے خلاف بات سننی ہے تو کون سے چینل کا انتخاب کرنا ہے۔‘
|
|
سنہ2017 کے آغاز میں چار سماجی اور سوشل میڈیا کارکنوں کی گمشدگی کو روایتی
یا مین سٹریم میڈیا نے تو قدرے دیر سے اپنی خبروں کا حصہ بنایا لیکن ان
بلاگرز کی گمشدگی سے متعلق اور ان کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پہ بھرپور
طریقے سے مہم چلائی گئی۔ جہاں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور
اداروں نے آواز اٹھائی وہیں مخالف آوازوں نے بھی اپنا پورا زور لگایا۔
2017 کے پاکستانی سوشل میڈیا نے انصاف کے لیے بھی بروقت ببانگِ دہل آواز
بلند کی اور اپریل میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علم مشال
خان کے قتل کے بعد ملوث افراد کی گرفتاری میں سوشل میڈیا پہ جاری ہونے والی
ویڈیوز نے اہم کردار ادا کیا۔ آج بهی مشال خان کے کیس کے بارے میں روایتی
میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پر زیادہ معلومات ملیں گی۔ اس کے علاوہ قانون کی
طالبہ خدیجہ صدیقی پر خنجر کے 23 وار کر کے اسے زخمی کرنے کا واقعہ پیش تو
2016 میں آیا تھا تاہم انصاف کے حصول میں درپیش رکاوٹوں کے خلاف بھی جسٹس
فار خدیجہ کا ہیش ٹیگ 2017 میں ٹرینڈ کرتا نظر آیا۔
کسی پر انگلی اٹھانی ہو، تنقید کرنی ہو، انصاف کے لیے آواز بلند کرنی ہو یا
پھر کسی بھی بحث میں اپنا حصہ ڈالنا ہو، 2017 میں پاکستانی سماجی رابطوں کی
ویب سائٹس پر ایک کی دلچپسی کے لیے کچھ نہ کچھ تھا۔ سوشل میڈیا پہ وائرل
ہونے والی کئی ویڈیوز کے مشہور جملے ہیش ٹیگ کی صورت میں ٹرینڈ کرتے بھی
نظر آئے اور سیاسی و سماجی پوسٹس پہ رائے کے اظہار کے لیے ’باس میں نے آپ
کو بولا کیا ہے‘، ’گائے آرہی ہے‘، ’کوہلی تم سے نہیں ہوگا چیز‘ کے ہیش ٹیگز
استعمال ہوئے-
|