ہمارے ہاں ادارے تو بنادیے جاتے ہیں مگر جب ان کو اختیار
دینے کی بات آتی ہے توہاتھ تنگ پڑجاتے ہیں۔سوائے فوج کے سبھی اداروں کا
سویلین ادوار میں برا حشر کیا گیا۔فوج ان کی دسترس سے محروم رہی۔مگرسویلین
سے بچا یہ ادارہ اس کے اپنے ہی باس کے ہاتھ تباہ ہوتارہا۔یحیٰی خاں اور
پرویز مشرف نے اپنے ہی ادارے کا اس قدرمنفی استعمال کیا کہ اس کی تکریم
باقی نہ رہی۔یحیٰی خاں کی پالیسی کا خمیازہ یہ نکلاکہ فوج نے ہتھیار ڈال کر
آدھے ملک سے قوم کو محروم کردیا۔مشرف دور میں اس ادارے کا دبدبہ اس حد تک
کم ہوا کہ وردی پہن کر پبلک پلیسزمیں گھومنا مشکل ہوگیا۔اداروں کو تباہ
کرنے میں حکمران برابر کے حصے دار ہیں۔سویلین اور فوجی آمر دونوں کا رول
یکساں رہا۔عدلیہ ا ن دنوں اپنی پرفارمنس کو لے کرصفائیوں اور وضاحتوں میں
مصروف ہے۔ یہ وضاحت اس کے حالیہ کچھ فیصلوں سے متعلق پائی جانے والی رائے
عامہ سے متعلق ہے۔عمران کی اہلیت کا فیصلہ انہیں فیصلوں میں شامل ہے۔اس
فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کو بڑا حوصلہ ملا۔ کھل کر عدلیہ پر تنقید کرنے لگی
ہے۔نیب پیشی کے بعد سابق وزیر اعظم نے کھل کر عدالتی نظام پر اظہار خیا ل
کیا ہے۔بولے کہ وہ بھیڑ بکری۔یا بے وقوف نہیں کہ اس فیصلے کو قبول
کرلیں۔عدلیہ نے اپنے لاڈلے کو تو چھوڑ دیا مگر ایک منتخب وزیر اعظم کو بغیر
کسی خطا کے گھر بھیج دیا۔عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی تھی۔اب انصاف کی بحالی
کی تحریک چلاؤ ں گا۔
سابق وزیر اعظم ووٹ کی حرمت کی بحالی کے لیے تحریک چلانے کا عندیہ دے رہے
تھے۔اب و ہ انصاف کی بحالی کی تحریک چلانے کی بات کررہے ہیں۔اصل میں وہ جن
قوتوں کے خلا ف ووٹ کی حرمت کی بحالی کی تحریک چلانا چاہتے ہیں۔وہ سمجھتے
ہیں کہ حالیہ کچھ عدالتی فیصلے کو بھی انہیں قوتوں سے جڑے ہیں۔وہ ان فیصلوں
کوخفیہ ہاتھ کی کارستانی خیال کرتے ہیں۔وہ خفیہ ہاتھ جو انہیں سیاست سے آؤٹ
کرنے کی سازش کررہے ہیں۔عدلیہ کو اس سازش میں گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی
ہے۔وہ نیب پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان فیصلوں سے متعلق اپنا
پارٹی موقف بیان کررہے تھے۔کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار پی پی کی طرف سے
بھی سامنے آیا ہے۔ عمران خاں کی نااہلیت کے فیصلے پر اس پارٹی کی طرف سے
مایوسی کا اظہارکیا گیا۔یہ جماعت پہلے ہی عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے کی
تاریخ رکھتی ہے۔عمران خاں کو اہل قراردیے جانے کا فیصلہ اس جماعت کے لیے
نئی مشکلات کا سبب بن سکتاہے۔ایک فضا بنائی جارہی تھی۔جیسے اگلی حکومت
بنوانے کے لیے زرداری صاحب کو سپورٹ کی جارہی ہے۔جس طرح پی پی قائدین کے
کیسز کے فیصلے ان کے حق میں آنے لگے۔جس طرح پی پی کی جانب سے زور دار جلسے
جلو س شروع کردیے گئے۔یوں لگ رہاتھا۔جیسے عمران خاں کو استعمال کرنے والے
اب اس ٹشو پیپر سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔عمران خاں کی نااہلی نہ
ہونا پی پی قیادت کے لیے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
یہ جماعت پچھلے کچھ مہینوں سے بڑی خود اعتمادی کی حامل نظر آئی۔زرداری صاحب
کی چہلیں بڑھ گئیں۔عام تاثر یہ تھاکہ پی پی سے معاملات طے پاگئے ہیں۔اگلے
الیکشن کے بعد ایک ایسی حکومت قائم کی جانے کا ارادہ تھا۔جسے عوام باآسانی
قبول کرلیں۔تحریک انصاف کی قبولیت میں مسائل تھے۔یک لمبے عرصے سے پیپلز
پارٹی اور مسلم لیگ ن پاکستان پرحکمران رہی ہیں۔ان دونوں کے سوا کسی تیسرے
کو ابھی تک قبول نہیں کیا جاسکا۔ سبب یہی رہا کہ کسی دوسری جماعت کا
انتظامی ڈھانچہ اتنا مضبوط نہ بن پایا۔یا تو یہ علاقائی حیثیت کی تھیں۔یا
ایک مخصوص سوچ اور فلسفے پر مبنی تھیں۔صرف پی پی اور مسلم لیگ ن ہی قومی
سوچ کی رہیں۔کئی جماعتوں کو ٹرائی تو کیا گیا۔مگر یہ آئیں اور چلی
گئیں۔دوہزار تیرہ کے الیکشن ریزلٹس بھی اسی رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔مسلم
لیگ ن کو دیوارسے لگانے کی پوری کوشش کی گئی مگر کامیا بی نہیں ملی۔اب جبکہ
اگلے الیکشن سر پرہیں۔اس بار کسی تیسری پارٹی کوآزمانے کا ذہن بنا لیا
گیا۔اسی سبب زرداری صاحب پر دست شفقت رکھ دیا گیا۔جس طرح ڈاکٹر عاصم۔شرجیل
میمن جیسے لوگوں کے مسائل کم ہوئے۔جس طرح پرویز اشرف اور یوسف رضاگیلانی کو
سہولتیں حاصل ہوئیں اس کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہ تھا۔کہ پی پی پر قسمت کی
دیوی مہربان ہوچکی۔عمران خان کی نااہلی نہ ہونا پی پی قیادت کے لیے دھچکے
سے کم نہیں۔یہ اس کے لیے رنگ میں بھنگ کی طر ح ہے۔ وہ تو پلیٹ میں رکھ کر
اقتدار مل جانے کا سوچے ہوئے تھی۔عمران خاں کی بریت اس با ت کا ثبوت ہے کہ
یہ کام اتنا آسان نہ ہوگا۔ اقتدار ملا بھی توبڑے کھیل تماشے دکھانے کے بعد
ملے گا۔پی پی پرفامنس کے بغیر اقتدار چاہتی ہے۔مگر وہ یہ نہیں سمجھتی کہ اس
راستے سے اقتدار اسی طریقے سے ملا کرتاہے۔کچھ کیے بن ہیرو بن جانے کی خود
فریبی پی پی کا دامن چھوڑنے پر تیارنہیں ہورہی۔ |