امریکہ کی جانب سے لگائے گئے ٹیرف (درآمدی محصولات) کا
عالمی تجارت پر گہرا اثر پڑتا ہے، اور پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں کے
لیے یہ ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا دارومدار برآمدات پر
ہے، اور امریکہ اس کے لیے ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ ایسے میں جب امریکہ
پاکستانی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرتا ہے، تو اس کے اثرات نہ صرف تجارتی
توازن بلکہ مجموعی معیشت پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔پاکستان کی اہم
برآمدی اشیاء میں ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات
اور زرعی اشیاء شامل ہیں۔ امریکہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کا ایک بڑا
خریدار ہے، اور اگر اس شعبے پر زیادہ ٹیرف عائد کیے جاتے ہیں، تو اس سے
پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ نتیجتاً، امریکی درآمد کنندگان
ان مصنوعات کو دوسرے ممالک سے حاصل کرنے کو ترجیح دے سکتے ہیں، جس سے
پاکستانی برآمدات متاثر ہوں گی۔پاکستان کو 2013 میں امریکہ کی جانب سے
*Generalized System of Preferences (GSP)* کا درجہ دیا گیا تھا، جس کے تحت
کچھ پاکستانی مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی حاصل تھی۔ اگر اس سہولت کو محدود
یا معطل کر دیا جاتا ہے، تو اس سے پاکستان کی برآمدی مسابقت کم ہو سکتی ہے،
اور پاکستانی تاجر اپنی مصنوعات کو دیگر مارکیٹوں میں فروخت کرنے پر مجبور
ہو سکتے ہیں۔پاکستان پہلے ہی ایک تجارتی خسارے کا سامنا کر رہا ہے، جہاں
درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں۔ امریکی ٹیرف سے یہ عدم توازن مزید بڑھ سکتا
ہے کیونکہ پاکستانی اشیاء مہنگی ہو کر عالمی مارکیٹ میں غیر مسابقتی ہو
سکتی ہیں۔ نتیجتاً، پاکستان کی زرمبادلہ کی آمدنی میں کمی آ سکتی ہے، جس سے
روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔پاکستان
میں لاکھوں افراد ٹیکسٹائل اور برآمدی صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ اگر امریکہ کی
طرف سے عائد کردہ ٹیرف کی وجہ سے برآمدات میں کمی آتی ہے، تو ان صنعتوں میں
روزگار کے مواقع بھی کم ہو سکتے ہیں۔ جب برآمدات کم ہوں گی، تو فیکٹریوں کو
پیداوار میں کمی کرنی پڑے گی، جس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ ہو
سکتا ہے۔اگرچہ امریکی ٹیرف ایک بڑا چیلنج ہیں، لیکن یہ پاکستان کے لیے موقع
بھی فراہم کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی برآمدی منڈیوں کو متنوع بنائے۔ چین،
یورپی یونین، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کی مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات
کی طلب موجود ہے، اور اگر پاکستان ان خطوں میں اپنی برآمدات بڑھا سکے، تو
وہ امریکی مارکیٹ پر انحصار کم کر سکتا ہے۔پاکستان کے لیے *یورپی یونین کا
GSP+ پروگرام* ایک بہترین متبادل ثابت ہو سکتا ہے، جو پہلے ہی پاکستانی
مصنوعات کو بغیر کسی ڈیوٹی کے یورپی مارکیٹ میں داخلے کی اجازت دیتا ہے۔
مزید برآں، چین کے ساتھ چین-پاکستان آزاد تجارتی معاہدہ (CPFTA) کے تحت
پاکستان اپنی برآمدات کو بہتر بنا سکتا ہے۔امریکہ کے ٹیرف سے نمٹنے کا ایک
اور طریقہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی مقامی صنعتوں کو ترقی دے اور ایسی
پالیسیوں کو اپنائے جو برآمدات میں اضافہ کریں۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل
اقدامات کیے جا سکتے ہیں:۔ ویلیو ایڈڈ مصنوعات پر توجہ۔: پاکستان کو خام
مال کے بجائے ویلیو ایڈڈ مصنوعات برآمد کرنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی،
تاکہ وہ عالمی مارکیٹ میں زیادہ مسابقتی بن سکے۔- صنعتی انفراسٹرکچر کی
بہتری جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، تحقیق و ترقی، اور صنعتی ترقی کو فروغ
دینے کے لیے حکومتی سطح پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔چھوٹے اور درمیانے درجے
کی صنعتوں کی مدد: SMEs (چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار) معیشت کی ریڑھ
کی ہڈی ہیں، اور ان کو مالی، تکنیکی اور پالیسی سپورٹ فراہم کرنا ضروری ہے
تاکہ وہ عالمی مارکیٹ میں اپنا مقام بنا سکیں۔پاکستانی حکومت کو امریکہ کے
ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سفارتی سطح پر مذاکرات کرنے کی
ضرورت ہے۔ اگر پاکستان اپنے تجارتی مفادات کا بہتر دفاع کرے، تو امریکہ کے
ساتھ بہتر شرائط پر تجارتی معاہدے طے کیے جا سکتے ہیں، جو پاکستانی مصنوعات
کو مسابقتی برتری فراہم کر سکتے ہیں۔امریکہ کی جانب سے لگائے گئے ٹیرف
بلاشبہ پاکستانی معیشت کے لیے ایک چیلنج ہیں، لیکن اگر دانشمندانہ حکمت
عملی اپنائی جائے تو ان سے پیدا ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنی برآمدات کو متنوع بنانے، صنعتی ترقی پر توجہ دینے اور
متبادل منڈیوں کی تلاش پر کام کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی، حکومت کو عالمی سطح پر
مؤثر سفارتکاری کے ذریعے اپنے تجارتی مفادات کا دفاع کرنا ہوگا۔ اگر یہ
اقدامات کامیابی سے اٹھائے جائیں، تو پاکستان امریکی ٹیرف کے اثرات کو کم
کرتے ہوئے اپنی معیشت کو مزید مستحکم کر سکتا ہے۔
|