Narrated Ibn 'Umar:
That the Prophet (ﷺ) said: Procrastination (in paying a debt) by a rich person is oppression. So if your debt is transfered from your debtor you should agree, and do not make two sales in one sale.
[Abu 'Eisa said:] The Hadith is the Abu Hurairah (no. 1308) is a Hasan Sahih Hadith. And its meaning is that when the debt of one of you is transferred then agree. Some of the people of knowledge said when a man is offered to transfer his debt to a rich man and he does so, then the transferor is free of it, he is not to seek its return from the transferor. This is the view of Ash-Shafi'i, Ahmad, and Ishaq. Some of the people of knowledge said: When this wealth could not be collected due to bankruptcy of the one it was transferred to, then he may seek its return to the first one. They argue this view with the saying of 'Uthman and others, when they said: There is nothing due on a Muslim's wealth that is lost. Ishaq said: The meaning of this Hadith: 'There is nothing due on a Muslim's wealth that is lost' this is when a man transfers it to another whom he thinks is wealthy, then he becomes bankrupt, so there is nothing due on the Muslim's wealth that is lost.
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَى مَلِيءٍ، فَاتْبَعْهُ، وَلَا تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَاهُ: إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى مَلِيءٍ، فَاحْتَالَهُ، فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْمُحِيلِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا تَوِيَ مَالُ هَذَا بِإِفْلَاسِ الْمُحَالِ عَلَيْهِ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْأَوَّلِ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ، حِينَ قَالُوا: لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى، قَالَ إِسْحَاق: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ هَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى آخَرَ، وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ مَلِيٌّ فَإِذَا هُوَ مُعْدِمٌ، فَلَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور جب تم کسی مالدار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کر لو، اور ایک بیع میں دو بیع نہ کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کو کسی مالدار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کر لے تو حوالے کرنے والا بری ہو جائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: کہ «محتال علیہ» ”جس آدمی کی طرف تحویل کیا گیا ہے“، کے مفلس ہو جانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہو تو قرض خواہ کے لیے جائز ہو گا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے، ان لوگوں نے اس بات پر عثمان رضی الله عنہ وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے، ۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اس حدیث «ليس على مال مسلم توي» ”مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے“، کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیا گیا اور اسے مالدار سمجھ رہا ہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہو گا ( اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کر سکتا ہے ) ۔