Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: `Ali bin Abi Talib sent a piece of gold not yet taken out of its ore, in a tanned leather container to Allah's Apostle . Allah's Apostle distributed that amongst four Persons: 'Uyaina bin Badr, Aqra bin H`Abis, Zaid Al-Khail and the fourth was either Alqama or Amir bin at-Tufail. On that, one of his companions said, We are more deserving of this (gold) than these (persons). When that news reached the Prophet , he said, Don't you trust me though I am the truth worthy man of the One in the Heavens, and I receive the news of Heaven (i.e. Divine Inspiration) both in the morning and in the evening? There got up a man with sunken eyes, raised cheek bones, raised forehead, a thick beard, a shaven head and a waist sheet that was tucked up and he said, O Allah's Apostle! Be afraid of Allah. The Prophet said, Woe to you! Am I not of all the people of the earth the most entitled to fear Allah? Then that man went away. Khalid bin Al-Wahd said, O Allah's Apostle! Shall I chop his neck off? The Prophet said, No, for he may offer prayers. Khalid said, Numerous are those who offer prayers and say by their tongues (i.e. mouths) what is not in their hearts. Allah's Apostle said, I have not been ordered (by Allah) to search the hearts of the people or cut open their bellies. Then the Prophet looked at him (i.e. that man) while the latter was going away and said, From the offspring of this (man there will come out (people) who will recite the Qur'an continuously and elegantly but it will not exceed their throats. (They will neither understand it nor act upon it). They would go out of the religion (i.e. Islam) as an arrow goes through a game's body. I think he also said, If I should be present at their time I would kill them as the nations a Thamud were killed.
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ شُبْرُمَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ : بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا ، قَالَ : فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ ، وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ ، وَزَيْدِ الْخَيْلِ ، وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ : كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ ، قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً ؟ قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ ، نَاشِزُ الْجَبْهَةِ ، كَثُّ اللِّحْيَةِ ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ ، مُشَمَّرُ الْإِزَارِ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اتَّقِ اللَّهَ ، قَالَ : وَيْلَكَ ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ ، قَالَ : ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ ؟ قَالَ : لَا ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي ، فَقَالَ خَالِدٌ : وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ ، قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ ، فَقَالَ : إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ، وَأَظُنُّهُ قَالَ : لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع بن شبرمہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی نعیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یمن سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دئیے ہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے۔ ان سے ( کان کی ) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ رضی اللہ عنہم تھے یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی جو آسمان پر ہے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا، تہبند اٹھائے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس تجھ پر، کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو اس پر خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی نے کہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( منافق ) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں ان کے دور میں ہوا تو ثمود کی قوم کی طرح ان کو بالکل قتل کر ڈالوں گا۔