Narrated Abu Ad-Darda: There was a dispute between Abu Bakr and `Umar, and Abu Bakr made `Umar angry. So `Umar left angrily. Abu Bakr followed him, requesting him to ask forgiveness (of Allah) for him, but `Umar refused to do so and closed his door in Abu Bakr's face. So Abu Bakr went to Allah's Messenger while we were with him. Allah's Messenger said, This friend of yours must have quarrelled (with somebody). In the meantime `Umar repented and felt sorry for what he had done, so he came, greeted (those who were present) and sat with the Prophet and related the story to him. Allah's Messenger became angry and Abu Bakr started saying, O Allah's Messenger ! By Allah, I was more at fault (than `Umar). Allah's Apostle said, Are you (people) leaving for me my companion? (Abu Bakr), Are you (people) leaving for me my companion? When I said, 'O people I am sent to you all as the Apostle of Allah,' you said, 'You tell a lie.' while Abu Bakr said, 'You have spoken the truth .
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَمُوسَى بْنُ هَارُونَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، يَقُولُ : كَانَتْ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ مُحَاوَرَةٌ ، فَأَغْضَبَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ ، فَانْصَرَفَ عَنْهُ عُمَرُ مُغْضَبًا ، فَاتَّبَعَهُ أَبُو بَكْرٍ يَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَهُ ، فَلَمْ يَفْعَلْ ، حَتَّى أَغْلَقَ بَابَهُ فِي وَجْهِهِ ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : وَنَحْنُ عِنْدَهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمَّا صَاحِبُكُمْ هَذَا فَقَدْ غَامَرَ ، قَالَ : وَنَدِمَ عُمَرُ عَلَى مَا كَانَ مِنْهُ ، فَأَقْبَلَ حَتَّى سَلَّمَ وَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَصَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرَ ، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : وَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ ، يَقُولُ : وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَأَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي ؟ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي ؟ إِنِّي قُلْتُ : يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا سورة الأعراف آية 158 ، فَقُلْتُمْ : كَذَبْتَ ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : صَدَقْتَ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ غَامَرَ : سَبَقَ بِالْخَيْرِ .
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور موسیٰ بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ بحث سی ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر غصہ ہو گئے اور ان کے پاس سے آنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو گئے، معافی مانگتے ہوئے۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معاف نہیں کیا اور ( گھر پہنچ کر ) اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم لوگ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے یہ صاحب ( یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ ) لڑ آئے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے طرز عمل پر نادم ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور سلام کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ بہت ناراض ہوئے۔ ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار یہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! واقعی میری ہی زیادتی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے میرے ساتھی سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم لوگ میرے ساتھی کو مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ جب میں نے کہا تھا کہ اے انسانو! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کی طرف، تو تم لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، اس وقت ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں۔ ابوعبداللہ نے کہا «غامر» کے معنی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھلائی میں سبقت کی ہے۔