Narrated Ibn `Abbas: 'Uyaina bin Hisn bin Hudhaifa came and stayed with his nephew Al-Hurr bin Qais who was one of those whom `Umar used to keep near him, as the Qurra' (learned men knowing Qur'an by heart) were the people of `Umar's meetings and his advisors whether they were old or young. 'Uyaina said to his nephew, O son of my brother! You have an approach to this chief, so get for me the permission to see him. Al-Hurr said, I will get the permission for you to see him. So Al-Hurr asked the permission for 'Uyaina and `Umar admitted him. When 'Uyaina entered upon him, he said, Beware! O the son of Al-Khattab! By Allah, you neither give us sufficient provision nor judge among us with justice. Thereupon `Umar became so furious that he intended to harm him, but Al-Hurr said, O chief of the Believers! Allah said to His Prophet: Hold to forgiveness; command what is right; and leave (don't punish) the foolish. (7.199) and this (i.e. 'Uyaina) is one of the foolish. By Allah, `Umar did not overlook that Verse when Al-Hurr recited it before him; he observed (the orders of) Allah's Book strictly.
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ ، فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسٍ ، وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ ، وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ ، وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا ، فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ : يَا ابْنَ أَخِي ، هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ فَاسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ ؟ قَالَ : سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَاسْتَأْذَنَ الْحُرُّ لِعُيَيْنَةَ فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ ، قَالَ : هِي يَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، فَوَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ ، وَلَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ ، فَغَضِبَ عُمَرُ ، حَتَّى هَمَّ أَنْ يُوقِعَ بِهِ ، فَقَالَ لَهُ الْحُرُّ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ سورة الأعراف آية 199 ، وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ ، وَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ ، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ .
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آ کر قیام کیا۔ حر، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہت قریب رکھتے تھے جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لیے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لیے بھی اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے بھی اجازت مانگی اور عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے ”معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جایا کیجئے۔“ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ بالکل ٹھنڈے پڑ گئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سامنے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔