Narrated `Aisha: A man called Labid bin al-A'sam from the tribe of Bani Zaraiq worked magic on Allah's Apostle till Allah's Apostle started imagining that he had done a thing that he had not really done. One day or one night he was with us, he invoked Allah and invoked for a long period, and then said, O `Aisha! Do you know that Allah has instructed me concerning the matter I have asked him about? Two men came to me and one of them sat near my head and the other near my feet. One of them said to his companion, What is the disease of this man? The other replied, He is under the effect of magic.' The first one asked, 'Who has worked the magic on him?' The other replied, Labid bin Al-A'sam.' The first one asked, 'What material did he use?' The other replied, 'A comb and the hairs stuck to it and the skin of pollen of a male date palm.' The first one asked, 'Where is that?' The other replied, '(That is) in the well of Dharwan;' So Allah's Apostle along with some of his companions went there and came back saying, O `Aisha, the color of its water is like the infusion of Henna leaves. The tops of the date-palm trees near it are like the heads of the devils. I asked. O Allah's Apostle? Why did you not show it (to the people)? He said, Since Allah cured me, I disliked to let evil spread among the people. Then he ordered that the well be filled up with earth.
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : سَحَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ ، يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ ، حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ كَانَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ عِنْدِي لَكِنَّهُ دَعَا وَدَعَا ، ثُمَّ قَالَ : يَا عَائِشَةُ : أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ ، أَتَانِي رَجُلَانِ فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ : مَا وَجَعُ الرَّجُلِ ؟ ، فَقَالَ : مَطْبُوبٌ ، قَالَ : مَنْ طَبَّهُ ؟ ، قَالَ : لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ ، قَالَ : فِي أَيِّ شَيْءٍ ؟ ، قَالَ : فِي مُشْطٍ ، وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعِ نَخْلَةٍ ذَكَرٍ ، قَالَ : وَأَيْنَ هُوَ ؟ ، قَالَ : فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ ، فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ ، فَجَاءَ ، فَقَالَ : يَا عَائِشَةُ كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ أَوْ كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا اسْتَخْرَجْتَهُ ، قَالَ : قَدْ عَافَانِي اللَّهُ فَكَرِهْتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ فِيهِ شَرًّا ، فَأَمَرَ بِهَا ، فَدُفِنَتْ ، تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ ، وَأَبُو ضَمْرَةَ ، وَابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ هِشَامٍ ، وَقَالَ اللَّيْثُ , وَابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ هِشَامٍ فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ ، يُقَالُ الْمُشَاطَةُ : مَا يَخْرُجُ مِنَ الشَّعَرِ إِذَا مُشِطَ ، وَالْمُشَاقَةُ مِنْ مُشَاقَةِ الْكَتَّانِ .
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ اشعری نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بنی زریق کے ایک شخص یہودی لبید بن اعصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ ایک دن یا ( راوی نے بیان کیا کہ ) ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعا کر رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ سے جو بات میں پوچھ رہا تھا، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا۔ میرے پاس دو ( فرشتے جبرائیل و میکائیل علیہما السلام ) آئے۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں۔ سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ زروان کے کنویں میں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا عائشہ! اس کا پانی ایسا ( سرخ ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر ( اوپر کا حصہ ) شیطان کے سروں کی طرح تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جادو کا سامان کنگھی بال خرما کا غلاف ہوتے ہیں اسی میں دفن کرا دیا۔ عیسیٰ بن یونس کے ساتھ اس حدیث کو ابواسامہ اور ابوضمرہ ( انس بن عیاض ) اور ابن ابی الزناد تینوں نے ہشام سے یوں روایت کیا اور لیث بن مسور اور سفیان بن عیینہ نے ہشام سے یوں روایت کیا ہے «في مشط ومشاقة.، المشاطة» اسے کہتے ہیں جو بال کنگھی کرنے میں نکلیں سر یا داڑھی کے اور «مشاقة.» روئی کے تار یعنی سوت کے تار کو کہتے ہیں۔