Narrated Anas: Once the people started asking Allah's Apostle questions, and they asked so many questions that he became angry and ascended the pulpit and said, I will answer whatever questions you may ask me today. I looked right and left and saw everyone covering his face with his garment and weeping. Behold ! There was a man who, on quarreling with the people, used to be called as a son of a person other than h is father. He said, O Allah's Apostle! Who is my father? The Prophet replied, Your father is Hudhaifa. And then `Umar got up and said, We accept Allah as our Lord, and Islam as (our) religion, and Muhammad as (our) Apostle; and we seek refuge with Allah from the afflictions. Allah's Apostle said, I have never seen a day like today in its good and its evil for Paradise and the Hell Fire were displayed in front of me, till I saw them just beyond this wall. Qatada, when relating this Hadith, used to mention the following Verse:-- 'O you who believe! Ask not questions about things which, If made plain to you, May cause you trouble. (5.101)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ الْمَسْأَلَةَ ، فَغَضِبَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ ، فَقَالَ : لَا تَسْأَلُونِي الْيَوْمَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ يَمِينًا وَشِمَالًا ، فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي ، فَإِذَا رَجُلٌ كَانَ إِذَا لَاحَى الرِّجَالَ يُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَنْ أَبِي ؟ قَالَ : حُذَافَةُ ، ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ ، فَقَالَ : رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا ، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا رَأَيْتُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَالْيَوْمِ قَطُّ ، إِنَّهُ صُوِّرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَتَّى رَأَيْتُهُمَا وَرَاءَ الْحَائِطِ ، وَكَانَ قَتَادَةُ يَذْكُرُ عِنْدَ هَذَا الْحَدِيثِ هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101 .
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ کئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگواری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں بتاؤں گا۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ سر اپنے کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رو رہے تھے، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف ( طعنہ کے طور پر ) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرے باپ کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حذافہ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا ہم اللہ سے راضی ہیں کہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ سچے رسول ہیں، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آج کی طرح خیر و شر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا۔ قتادہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت ( سورۃ المائدہ کی ) اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» ”اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق نہ سوال کرو کہ اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہر ہو جائے تو تم کو برا لگے۔“