Anas, (Allah be pleased with him) reported:
Safiyya (Allah be pleased with her) fell to the lot of Dihya in the spoils of war, and they praised her in the presence of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: We have not seen the like of her among the captives of war. He sent (a messenger) to Dihya and he gave him whatever he demanded. He then sent her to my mother and asked her to embellish her. Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) then got out of Khaibar until when he was on the other side of it, he halted, and a tent was pitched for him. When it was morning Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: He who has surplus of provision with him should bring that to us. Some persons would bring the surplus of dates, and the other surplus of mush of barley until there became a heap of bals. They began to eat the hais and began to drink out of the pond which had the water of rainfall in it and which was situated by their side. Anas said that that constituted the wedding feast of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ). He (further) said: We proceeded until we saw the walls of Medina, and we were delighted. We made our mounts run quickly and Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) also made his mount run quickly. And Safiyya (Allah be pleased with her) was at his back, and Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had seated her behind him. The camel of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) stumbled and he (the Holy Prophet) fell down and she also fell down. And none among the people was seeing him and her, until Allah's Messeuger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) stood up and he covered her, and we came to him and he said: We have received no injury. We entered Medina and there came out the young ladies of the household. They saw her (hadrat Safiyya) and blamed her for falling down.
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، ح وحَدَّثَنِي بِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ هَاشِمِ بْنِ حَيَّانَ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ فِي مَقْسَمِهِ، وَجَعَلُوا يَمْدَحُونَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَيَقُولُونَ: مَا رَأَيْنَا فِي السَّبْيِ مِثْلَهَا، قَالَ: فَبَعَثَ إِلَى دِحْيَةَ، فَأَعْطَاهُ بِهَا مَا أَرَادَ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّي، فَقَالَ: «أَصْلِحِيهَا»، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، حَتَّى إِذَا جَعَلَهَا فِي ظَهْرِهِ نَزَلَ، ثُمَّ ضَرَبَ عَلَيْهَا الْقُبَّةَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ، فَلْيَأْتِنَا بِهِ»، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِفَضْلِ التَّمْرِ، وَفَضْلِ السَّوِيقِ، حَتَّى جَعَلُوا مِنْ ذَلِكَ سَوَادًا حَيْسًا، فَجَعَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ ذَلِكَ الْحَيْسِ، وَيَشْرَبُونَ مِنْ حِيَاضٍ إِلَى جَنْبِهِمْ مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَقَالَ أَنَسٌ: فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا، حَتَّى إِذَا رَأَيْنَا جُدُرَ الْمَدِينَةِ هَشِشْنَا إِلَيْهَا، فَرَفَعْنَا مَطِيَّنَا، وَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطِيَّتَهُ، قَالَ: وَصَفِيَّةُ خَلْفَهُ، قَدْ أَرْدَفَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَعَثَرَتْ مَطِيَّةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَصُرِعَ وَصُرِعَتْ، قَالَ: فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَلَا إِلَيْهَا، حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَتَرَهَا، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ، فَقَالَ: «لَمْ نُضَرَّ»، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْمَدِينَةَ، فَخَرَجَ جَوَارِي نِسَائِهِ يَتَرَاءَيْنَهَا وَيَشْمَتْنَ بِصَرْعَتِهَا
سلیمان بن مغیرہ نے ہمیں ثابت سے حدیث بیان کی کہا : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : حضرت صفیہ حضرت دحیہ رضی اللہ عنہا کے حصے میں آ گئیں ، ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے حصے کی ایک کنیز لینے کی اجازت دے کر غیر رسمی طور پر تقسیم کا آغاز فرما دیا تھا ۔ ) لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی تعریف کرنے لگے ، وہ کہہ رہے تھے : ہم نے قیدیوں میں ان جیسی عورت نہیں دیکھی ۔ تو آپ نے دحیہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا ، اور ان کے بدلے میں جو انہوں نے چاہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ، پھر آپ نے اسے میری والدہ کے سپرد کیا اور فرمایا : " اسے بنا سنوار دو ۔ " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے نکلے حتیٰ کہ جب آپ نے اسے پشت کی طرف کر لیا ، ( خیبر پیچھے رہ گیا ) تو آپ نے پڑاؤ ڈالا ، پھر ان ( حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ) کے لیے خیمہ لگوایا ، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جس کے پاس زادِ راہ سے زائد کچھ ہو وہ اسے ہمارے پاس لے آئے ۔ " کہا : اس پر کوئی آدمی زائد کھجوریں لے کر آنے لگا اور ( کوئی ) زائد ستو ، حتیٰ کہ لوگوں نے ان چیزوں سے ایک ڈھیر مخلوط کھانے ( حَیس ) کا بنا لیا ، پھر وہ اس حیس میں سے تناول کرنےلگے اور بارش کے پانی کے حوضوں سے جو ان کے قریب تھے پانی پینے لگے ۔ کہا : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ تھا ان ( صفیہ رضی اللہ عنہا ) کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ ۔ کہا : اس کے بعد ہم چل پڑے ، جب ہم نے مدینہ کی دیواریں دیکھیں تو ہم شدتِ شوق سے اس کی طرف لپک پڑے ، ہم نے اپنی ساریاں اٹھا دیں ( تیز کر دیں ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی سواری اٹھا دی ۔ کہا : صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا ، کہا : ( اچانک ) رسول اللہ کی سواری کو ٹھوکر لگی تو آپ زمین پر آ رہے اور وہ ( حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ) بھی زمین پر آ رہیں ، کہا : لوگوں میں سے کوئی بھی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا تھا اور نہ ان کی طرف ، کہا : حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے آگے پردہ کیا ، پھر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو آپ نے فرمایا : " ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ " پھر ہم مدینہ کے اندر داخل ہوئے تو آپ کی ازواج کی باندیاں باہر نکل آئیں ، وہ ایک دوسری کو وہ ( صفیہ رضی اللہ عنہا ) دکھا رہی تھیں ، اور ان کے گرنے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھیں