Abu Nadra reported:
I asked Ibn Abbas (Allah be pleased with them) about the conversion (of gold and silver for silver and gold). We said: Is it hand to hand exchange? I said: Yes. whereupon he said: There is no harm in it. I informed Abu Sa'id about it, telling him that I had asked Ibn 'Abbas about it and he said: Is it hand to hand exchange? I said: Yes, whereupon he said: There is no harm in it. He (the narrator) said, or he said like it: We will soon write to him, and he will not give you this fatwa (religious verdict). He said: By Allah, someone of the boy-servants of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) brought dates, but he refused to accept them (on the plea) that those did not seem to be of the dates of our land. He said: Something had happened to the dates of our land, or our dates. So I got these dates (in exchange by giving) excess (of the dates of our land), whereupon he said: You made an addition for getting the fine dates (in exchange) which tantamounts, to interest; don't do that (in future). Whenever you find some doubt (as regards the deteriorating quality of) your dates, sell them, and then buy the dates that you like.
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: أَيَدًا بِيَدٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا بَأْسَ بِهِ، فَأَخْبَرْتُ أَبَا سَعِيدٍ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: أَيَدًا بِيَدٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا بَأْسَ بِهِ، قَالَ: أَوَ قَالَ ذَلِكَ؟ إِنَّا سَنَكْتُبُ إِلَيْهِ فَلَا يُفْتِيكُمُوهُ، قَالَ: فَوَاللهِ لَقَدْ جَاءَ بَعْضُ فِتْيَانِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ، فَأَنْكَرَهُ، فَقَالَ: «كَأَنَّ هَذَا لَيْسَ مِنْ تَمْرِ أَرْضِنَا» قَالَ: كَانَ فِي تَمْرِ أَرْضِنَا، أَوْ فِي تَمْرِنَا الْعَامَ بَعْضُ الشَّيْءِ، فَأَخَذْتُ هَذَا وَزِدْتُ بَعْضَ الزِّيَادَةِ، فَقَالَ: «أَضْعَفْتَ، أَرْبَيْتَ، لَا تَقْرَبَنَّ هَذَا، إِذَا رَابَكَ مِنْ تَمْرِكَ شَيْءٌ فَبِعْهُ، ثُمَّ اشْتَرِ الَّذِي تُرِيدُ مِنَ التَّمْرِ»
سعید جریری نے ابونضرہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دینار و درہم یا سونے چاندی کے تبادلے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : کہا یہ دست بدست ہے؟ میں نے جواب دیا : جی ہاں ، انہوں نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں ۔ میں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کو خبر دی ، میں نے کہا : میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دینار و درہم یا سونے چاندی کے تبادلے کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا : کیا دست بدست ہے؟ میں نے جواب دیا تھا : ہاں ، تو انہوں نے کہا تھا : اس میں کوئی حرج نہیں ( انہوں نے ایک ہی جنس کی صورت میں مساوات کی شرط لگائے بغیر اسے علی الاطلاق جائز قرار دیا ۔ ) انہوں ( ابوسعید ) نے کہا : کیا انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ ہم ان کی طرف لکھیں گے تو وہ تمہیں ( غیر مشروط جواز کا ) یہ فتویٰ نہیں دیں گے ۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام سے کوئی کھجوریں لے کر آیا تو آپ نے انہیں نہ پہچانا اور فرمایا : " ایسا لگتا ہے کہ یہ ہماری سرزمین کی کھجوروں میں سے نہیں ہیں ۔ " اس نے کہا : اس سال ہماری زمین کی کھجوروں میں ۔ ۔ یا ہماری کھجوروں میں ۔ ۔ کوئی چیز ( خرابی ) تھی ، میں نے یہ ( عمدہ کھجوریں ) لے لیں اور بدلے میں کچھ زیادہ دے دیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم نے دوگنا دیں ، تم نے سود کا لین دین کیا ، اس کے قریب ( بھی ) مت جاؤ ، جب تمہیں اپنی کھجور کے بارے میں کسی چیز ( نقص وغیرہ ) کا شک ہو تو اسے فروخت کرو ، پھر کھجور میں سے تم جو چاہتے ہو ( نقدی کے عوج ) خرید لو ۔ "