This tradition has been narrated by the game authority (Yazid b. Hurmus) through a different chain of transmitters with the following difference in the elucidation of one of the points raised by Najda in his letter to Ibn Abas:
The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) used not to kill the children, so thou shouldst not kill them unless you could know what Khadir had known about the child he killed, or you could distinguish between a child who would grow up to he a believer (and a child who would grow up to be a non-believer), so that you killed the (prospective) non-believer and left the (prospective) believer aside.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، كِلَاهُمَا عَنْ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، يَسْأَلُهُ عَنْ خِلَالٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ حَاتِمٍ: وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الصَّبِيِّ الَّذِي قَتَلَ ، وَزَادَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ حَاتِمٍ، وَتُمَيِّزَ الْمُؤْمِنَ، فَتَقْتُلَ الْكَافِرَ، وَتَدَعَ الْمُؤْمِنَ
ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم دونوں نے ہمیں حاتم بن اسماعیل سے حدیث بیان کی ، انہوں نے جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سے کچھ باتیں پوچھنے کے لیے خط لکھا ۔ ۔ ۔ ( آگے ) سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند ہے ، مگر حاتم کی حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے ، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کرو ، الا یہ کہ تمہیں بھی اسی طرح علم حاصل ہو جائے جس طرح خضر کو اس بچے کے بارے میں علم ہوا تھا جسے انہوں نے قتل کیا تھا ۔
اسحاق نے حاتم سے روایت کردہ اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا : ( الا یہ کہ ) تم ( بچوں میں سے ) مومن کا امتیاز کر لو تو کافر کو قتل کر دینا اور مومن کو چھوڑ دینا ( یہ دونوں باتیں کسی انسان کے بس میں نہیں جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتائے