It has been narrated on the authority of Abu Humaid as-Sa'idi who said:
The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) appointed a man from the Asad tribe who was called Ibn Lutbiyya in charge of Sadaqa (i. e. authorised hign to receive Sadaqa from the people on behalf of the State. When he returned (with the collictions), he said: This is for you and (this is mine as) it was presented to me as a gift. The narrator said: The Messenger of Allah (may peace be upod him) stood on the pulpit and praised God and extolled Him. Then he said: What about a State official whom I give an assignment and who (comes and) says: This is for you and this has been presented to me as a gift? Why didn't he remain in the house of his father or the house of his mother so that he could observe whether gifts were presented to him or not. By the Being in Whose Hand is the life of Muhammad, any one of you will not take anything from it but will bring it on the Day of Judgment, carrying on his neck a camel that will be growling, or a cow that will be bellowing or an ewe that will be bleating. Then he raised his hands so that we could see the whiteness of his armpits. Then he said twice: O God, I have conveyed (Thy Commandments).
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَسْدِ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ - قَالَ عَمْرٌو: وَابْنُ أَبِي عُمَرَ - عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا لِي، أُهْدِيَ لِي، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ عَامِلٍ أَبْعَثُهُ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَفَلَا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ، أَوْ فِي بَيْتِ أُمِّهِ، حَتَّى يَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَنَالُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةٌ لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةٌ تَيْعِرُ ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللهُمَّ، هَلْ بَلَّغْتُ؟» مَرَّتَيْنِ
ابوبکر بن ابی شیبہ ، عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے حدیث بیان کی ، ۔ ۔ الفاظ ابوبکر بن ابی شیبہ کے ہیں ۔ ۔ کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے زہری سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عروہ سے ، انہوں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسد کے ایک شخص کو جسے ابن لُتبیہ کہا جاتا تھا ، عامل مقرر کیا ۔ ۔ عمرو اور ابن ابی عمر نے کہا : زکاۃ کی وصولی پر ( مقرر کیا ) ۔ ۔ جب وہ ( زکاۃ وصول کر کے ) آیا تو اس نے کہا : یہ آپ لوگوں کے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : "" ایک عامل کا حال کیا ہوتا ہے کہ میں اس کو ( زکاۃ وصول کرنے ) بھیجتا ہوں اور وہ آ کر کہتا ہے : یہ آپ لوگوں کے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے ، ایسا کیوں نہ ہوا کہ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کےگھر میں بیٹھتا ، پھر نظر آتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں کہ وہ اس ( مال ) میں سے ( اپنے لیے ) کچھ لے ، مگر وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس نے اسے اپنی گردن پر اٹھا رکھا ہو گا ، قیامت کے دن اونٹ ہو گا ، بلبلا رہا ہو گا ، گائے ہو گی ، ڈکرا رہی ہو گی ، بکری ہو گئی ، ممیا رہی ہو گی ۔ "" پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کیے کہ ہمیں آپ کی دونوں بغلوں کے سفید حصے نظر آئے ، پھر آپ نے دو مرتبہ فرمایا : "" اے اللہ! کیا میں نے ( حق ) پہنچا دیا؟ ""
( 4739 ) معمر نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے ، انہوں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اَزد کے ابن لتبيه نامی ایک شخص کو زکاۃ ( کی وصولی ) پر عامل بنایا ، وہ کچھ مال لے کر آیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور کہا : یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : "" تم اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھے ، پھر دیکھتے کہ تمہیں ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ "" پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ، پھر سفیان ( بن عیینہ ) کی حدیث کی طرح بیان کیا