Anas b. Malik reported that the people asked Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) until he was hard pressed. He went out one day and he occupied the pulpit and said:
Ask me and I shall leave no question of yours unanswered for you, and when the people heard about it they were overawed, as if (something tragic) was going to happen. Anas said: I began to look towards the right and the left and (found) that every person was weeping wrapping his head with the cloth. Then a person in the mosque broke the ice and they used to dispute with him by attributing his fatherhood to another man than his own father. He said: Allah's Apostle, who is my father? He said: Your father is Hudhafa. Then 'Umar b. Khattab (Allah be pleased with him) dared say something and said: We are well pleased with Allah as our Lord, with Islam as our code of life and with Muhammad as our Messenger, seeking refuge with Allah from the evil of Turmoil. Thereupon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Never did I see the good and evil as today. Paradise and Hell were given a visible shape before me (in this worldly life) and I saw both of them near this well.
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّاسَ سَأَلُوا نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ، فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: «سَلُونِي، لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ» فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْقَوْمُ أَرَمُّوا وَرَهِبُوا أَنْ يَكُونَ بَيْنَ يَدَيْ أَمْرٍ قَدْ حَضَرَ. قَالَ أَنَسٌ: فَجَعَلْتُ أَلْتَفِتُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي، فَأَنْشَأَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، كَانَ يُلَاحَى فَيُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ مَنْ أَبِي؟ قَالَ: «أَبُوكَ حُذَافَةُ» ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، عَائِذًا بِاللهِ مِنْ سُوءِ الْفِتَنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ قَطُّ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، إِنِّي صُوِّرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَرَأَيْتُهُمَا دُونَ هَذَا الْحَائِطِ»
سعید نے قتادہ سے ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ لو گوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ( بہت زیادہ اور بے فائدہ ) سوالات کیےحتی کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سوالات سے تنگ کردیا ، تو ایک دن آپ باہر تشر یف لائے ، منبر پر رونق افروز ہو ئے اور فر ما یا : "" اب مجھ سے ( جتنے چاہو ) سوال کرو ، تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھو گے ، میں تم کو اس کا جواب دوں گا ۔ "" جب لوگوں نے یہ سنا تو اپنے منہ بند کر لیےاور سوال کرنے سے ڈر گئےکہ کہیں یہ کسی بڑے معاملے ( وعید ، سزا سخت حکم وغیرہ ) کا آغاز نہ ہو رہا ہو ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے دائیں بائیں دیکھا تو ہر شخص کپڑے میں منہ لپیٹ کررورہا تھا تو مسجد میں سے وہ شخص اٹھا کہ جب ( لوگوں کا ) اس سے جھگڑا ہو تا تھا تو اسے اس کے باپ کے بجا ئے کسی اور کی طرف منسوب کردیا جا تا تھا ( ابن فلا ں!کہہ کر پکا را جا تا تھا ) اس نے کہا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ کون ہے ۔ ؟آپ نے فرما یا : "" تمھا را باپ حذافہ ہے ۔ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور کہا : ہم اللہ کو رب ، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مان کر راضی ہیں اور ہم برے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے والے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : خیر اور شر میں جو کچھ میں نے آج دیکھا ہے کبھی نہیں دیکھا ۔ میرے لیے جنت اور جہنم کی صورت گری کی گئی تو میں نے اس ( سامنے کی ) دیوارسےآگے ان دونوں کو دیکھ لیا ۔ ""