Ubaidullah b. Rafi', who was the scribe of 'All, reported:
I heard 'Ali (Allah be pleased with him) as saying: Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) sent me and Zubair and Miqdad saying: Go to the garden of, Khakh [it is a place between Medina and Mecca at a distance of twelve miles from Medina] and there you will find a woman riding a camel. She would be in possession of a letter, which you must get from her. So we rushed on horses and when we met that woman, we asked her to deliver that letter to us. She said: There is no letter with me. We said: Either bring out that letter or we would take off your clothes. She brought out that letter from (the plaited hair of) her head. We delivered that letter to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) in which Hatib b. Abu Balta'a had informed some people amongst the polytheists of Mecca about the affairs of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ). Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Hatib, what is this? He said: Allah's messenger, do not be hasty in judging my intention. I was a person attached to the Quraish. Sufyan said: He was their ally but had no relationship with them. (Hatib further said): Those who are with you amongst the emigrants have blood-relationship with them (the Quraish) and thus they would protect their families. I wished that when I had no blood-relationship with them I should find some supporters from (amongst them) who would help my family. I have not done this because of any unbelief or apostasy and I have no liking for the unbelief after I have (accepted) Islam. Thereupon Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: You have told the truth. 'Umar said: Allah's Messenger, permit me to strike the neck of this hypocrite. But he (the Holy Prophet) said: He was a participant in Badr and you little know that Allah revealed about the people of Badr: Do what you like for there is forgiveness for you. And Allah, the Exalted and Glorious, said: O you who believe, do not take My enemy and your enemy for friends (lx. 1). And there is no mention of this verse in the hadith transmitted on the authority of Abu Bakr and Zubair and Ishaq has in his narration made a mention of the recitation of this verse by Sufyan.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ - وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا - سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، وَهُوَ كَاتِبُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَهُوَ يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ: «ائْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا» فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا، فَإِذَا نَحْنُ بِالْمَرْأَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا حَاطِبُ مَا هَذَا؟» قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ - قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ حَلِيفًا لَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا - وَكَانَ مِمَّنْ كَانَ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَلَمْ أَفْعَلْهُ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ» فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي، يَا رَسُولَ اللهِ أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ، ذِكْرُ الْآيَةِ، وَجَعَلَهَا إِسْحَاقُ، فِي رِوَايَتِهِ مِنْ تِلَاوَةِ سُفْيَانَ
ابو بکر بن ابی شیبہ ، عمرو ناقد ، زہیر بن حرب ، اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی ، الفاظ عمرو کے ہیں ۔ اسحاق نے کہا : ہمیں خبر دی ، دوسروں نے کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو ( بن دینار ) سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حسن بن محمد سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب تھے ، خبر دی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : کہ ہمیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی ، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال ۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار ۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا ۔ ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے ، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام ( اور اس میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا ( ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے ۔ میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے ، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو ( بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں ) میں نے تمہیں بخش دیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“ ۔ ( سورۃ : الممتحنہ : 1 ) ۔