Muawiyah bin al-Hakam al-Sulami said: I was praying with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم. A man in the company sneezed, and I said: May Allah have mercy on you! The people gave me disapproving looks, so I said: Woe is to me! What do you mean by looking at me? They began to strike their hand on their thighs; then I realised that they were urging me to be silent. When the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم finished his prayer – for whom I would give my father and mother as ransom-he did not beat, scold or revile me, but said: No talk to people in lawful in this prayer, for it consists only in glorifying Allah, declaring His greatness, and reciting the Quran or words to that effect said by the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم. I said: Messenger of Allah, we were only recently pagans, but Allah has brought Islam to us, and among us there are men who have recourse to soothsayers (kahins). He replied: Do not have recourse to them. I said: Among us are there are men who take omens. He replied: That is something which they find, but let it not turn them away (from what they intended to do). I said: among us there are men who draw lines. He replied: There was a prophet who drew lines; so if the line of anyone tallies with this line, that might come true. I said: A slave-girl of mine used to tend goats before (the mountain) Uhud and al-Jawaniyyah. Once when I reached her (suddenly) I found that a wolf had taken away a goat of them. I am a human being; I feel grieved as others do. But I gave her a good knocking. This was unbearable for the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم. I asked: Should I set her free ? He replied: Bring her to me. So I brought her to him. He asked (her): Where is Allah ? She said: In the heaven. He said: Who am I ? She replied: You are the Messenger of Allah. He said: Set her free, for she is believer.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَى، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهُ، مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ ؟ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ يُصَمِّتُونِي، فَقَالَ عُثْمَانُ: فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَكِّتُونِي لَكِنِّي سَكَتُّ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي وَأُمِّي مَا ضَرَبَنِي وَلَا كَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَحِلُّ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ هَذَا إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ ، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَنَا اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ، وَمِنَّا رِجَالٌ يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ: فَلَا تَأْتِهِمْ ، قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ: ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدُّهُمْ ، قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ ، قَالَ: قُلْتُ جَارِيَةٌ لِي كَانَتْ تَرْعَى غُنَيْمَاتٍ قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ: إِذْ اطَّلَعْتُ عَلَيْهَا اطِّلَاعَةً فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْهَا، وَأَنَا مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَعَظُمَ ذَاكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَفَلَا أُعْتِقُهَا ؟ قَالَ: ائْتِنِي بِهَا ، قَالَ: فَجِئْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: أَيْنَ اللَّهُ ؟ قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: مَنْ أَنَا ؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ .
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، قوم میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے ( حالت نماز میں ) «يرحمك الله» کہا، اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے ( اپنے دل میں ) کہا: تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں، تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے رانوں کو تھپتھپانا شروع کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، میرے ماں باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا فرمایا: نماز میں اس طرح بات چیت درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے ، یا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ( ابھی ) نیا نیا مسلمان ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہم کو ( جاہلیت اور کفر سے نجات دے کر ) دین اسلام سے مشرف فرمایا ہے، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے پاس مت جاؤ ۔ میں نے کہا: ہم میں سے بعض لوگ بد شگونی لیتے ہیں؟ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے دلوں کا وہم ہے، یہ انہیں ان کے کاموں سے نہ روکے ۔ پھر میں نے کہا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیر ( خط ) کھینچتے ہیں؟ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی خط ( لکیریں ) کھینچا کرتے تھے، اب جس کسی کا خط ان کے خط کے موافق ہوا، وہ صحیح ہے ۔ میں نے کہا: میرے پاس ایک لونڈی ہے، جو احد اور جوانیہ کے پاس بکریاں چراتی تھی، ایک بار میں ( اچانک ) پہنچا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے کر چلا گیا ہے، میں بھی انسان ہوں، مجھے افسوس ہوا جیسے اور لوگوں کو افسوس ہوتا ہے تو میں نے اسے ایک زور کا طمانچہ رسید کر دیا تو یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزری، میں نے عرض کیا: کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس لے کر آؤ ، میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس لونڈی سے ) پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ ، اس نے کہا: آسمان کے اوپر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: میں کون ہوں؟ ، اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے ۔