Kathir bin Qarawanda said:
I asked Salim bin 'Abdullah about how his father prayed when traveling. We asked him: 'Did he combine any of his prayers when traveling?' He said that Safiyyah bint Abi 'Ubaid was married to him, and she wrote to him, when he was at some farmland of his, saying: 'This is the last of my days in this world, and the first day of the Hereafter. [1] He rode quickly to go to her, and when the time for Zuhr came, the Mu'adhdhin said to him: The prayer, O Abu 'Abdur-Rahman! But he paid no attention to him until it was between the time for the two prayers, then he stopped and said: Say the Iqamah and when I say the Taslim, say the Iqamah. Then he rode on again, and when the sun set the Mu'adhdhin said to him; The prayer! He said: Do as you did for Zuhr and 'Asr. When the stars had appeared, he stopped and said to the Mu'adhdhin: Say the Iqamah and when I say the Taslim, say the Iqamah. He prayed, then when he had finished he turned to us and said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'If any one of you has an urgent need that he fears he may miss, let him pray like this.' [1] Meaning that she was dying.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا، قال: سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ صَلَاةِ أَبِيهِ فِي السَّفَرِ وَسَأَلْنَاهُ: هَلْ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ فِي سَفَرِهِ ؟ فَذَكَرَ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَهُ، فَكَتَبَتْ إِلَيْهِ وَهُوَ فِي زَرَّاعَةٍ لَهُ: أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ فَرَكِبَ، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ إِلَيْهَا حَتَّى إِذَا حَانَتْ صَلَاةُ الظُّهْرِ، قال لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ نَزَلَ، فَقَالَ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّى ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، قال لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ: كَفِعْلِكَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا اشْتَبَكَتِ النُّجُومُ نَزَلَ، ثُمّ قال لِلْمُؤَذِّنِ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْأَمْرُ الَّذِي يَخَافُ فَوْتَهُ فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلَاةَ .
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ) کی نماز کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی نماز کو جمع کرتے تھے؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید ( جو ان کے عقد میں تھیں ) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے ( یعنی قریب المرگ ہوں آپ تشریف لائیے ) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں کا درمیانی وقت ہو گیا، تو سواری سے اترے اور بولے: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو ( پھر ) تکبیر کہو، ۲؎ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، انہوں نے کہا: جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے نماز پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح ( جمع کر کے ) نماز پڑھے ۔