It was narrated that Ziyad bin Sa'd bin Dumairah (said):
“My father and my paternal uncle, who were present at Hunain with the Messenger of Allah (ﷺ) narrated to me: 'The Prophet (ﷺ) prayed Zuhr, then he sat beneath a tree. Aqra' bin Habis, who was the chief of Khindaf, came to him arguing in defense of Muhallim bin Jaththamah. Uyainah bin Hisn came to him demanding vengeance for 'Amir bin Adbat who was from the tribe of Ashja. The Prophet (ﷺ) said to them: “Will you accept the blood money?'” But they refused. Then a man from Banu Laith, whose name was Mukaital, stood up and said: 'O Messenger of Allah (ﷺ)! By Allah (SWT)! This man who was killed in the early days of Islam is like Sheep that come to drink but stones are thrown at them, so the last of them runs away (i.e. ,the murderer should be killed).' The Prophet (ﷺ) said: 'You will have fifty (camels) while we are traveling and fifty (camels) when we return.' So they accepted the blood money.”
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ، حَدَّثَنِي أَبِي وَعَمِّي وَكَانَا شَهِدَا حُنَيْنًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَا: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ ثُمَّ جَلَسَ تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَقَامَ إِلَيْهِ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ وَهُوَ سَيِّدُ خِنْدِفٍ يَرُدُّ عَنْ دَمِ مُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَةَ وَقَامَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ يَطْلُبُ بِدَمِ عَامِرِ بْنِ الْأَضْبَطِ وَكَانَ أَشْجَعِيًّا، فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَقْبَلُونَ الدِّيَةَ ، فَأَبَوْا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ: مُكَيْتِلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا شَبَّهْتُ هَذَا الْقَتِيلَ فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ إِلَّا كَغَنَمٍ وَرَدَتْ، فَرُمِيَتْ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَكُمْ خَمْسُونَ فِي سَفَرِنَا، وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا فَقَبِلُوا الدِّيَةَ.
زید بن ضمیرہ کہتے ہیں کہ میرے والد اور چچا دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ان دونوں کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی پھر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، تو قبیلہ خندف کے سردار اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، وہ محکلم بن جثامہ سے قصاص لینے کو روک رہے تھے، عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ اٹھے، وہ عامر بن اضبط اشجعی کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے ۱؎، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم دیت ( خون بہا ) قبول کرتے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا، پھر بنی لیث کا مکیتل نامی شخص کھڑا ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! اسلام کے شروع زمانے میں یہ قتل میں ان بکریوں کے مشابہ سمجھتا تھا جو پانی پینے آتی ہیں، پھر جب آگے والی بکریوں کو تیر مارا جاتا ہے تو پیچھے والی اپنے آپ بھاگ جاتی ہیں، ۲؎آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پچاس اونٹ ( دیت کے ) ابھی لے لو، اور بقیہ پچاس مدینہ لوٹنے پر لے لینا، لہٰذا انہوں نے دیت قبول کر لی ۔