It was narrated that ‘Aishah said:
“We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) on the Farewell Pilgrimage, close to the time of the crescent of Dhul-Hijjah. The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever among you wants to begin the Talbiyah for ‘Umrah, let him do so. If it were not for the fact that I have brought a sacrificial animal with me, I would have began the Talbiyah for ‘Umrah.’” She said: “Some of the people began the Talbiyah for ‘Umrah, and some began the Talbiyah for Hajj. I was one of those who began the Talbiyah for ‘Umrah.” She said: “We set out until we reached Makkah, then the Day of ‘Arafah came while I was in menses, but I did not exit Ihram for ‘Umrah I complained about that to the Prophet (ﷺ) and he said: ‘Leave your ‘Umrah, undo your hair and comb it, and begin the Talbiyah for Hajj.’” She said: “So I did that, then on the night of Hasbah (i.e., the twelfth night of Dhul-Hijjah), when Allah had enables us to complete our Hajj, he sent ‘Abdur-Rahman bin Abu Bakr with me. He seated me behind him and went out to Tan’im, then I began the Talbiyah for ‘Umrah and Allah enabled us to complete our Hajj and ‘Umrah, and there was no sacrificial animal, charity nor fasting.”
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ نُوَافِي هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهْلِلْ، فَلَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ، لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ ، قَالَتْ: فَكَانَ مِنَ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَتْ: فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ، وَأَنَا حَائِضٌ لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ ، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَحْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَا صَوْمٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مدینہ سے ) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبال کرنے والے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے، پکارے، اور اگر میں ہدی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا تلبیہ پکارتا ، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے، اور اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آ گیا، اور میں حیض سے تھی، عمرہ سے ابھی حلال نہیں ہوئی تھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا عمرہ چھوڑ دو، اور اپنا سر کھول لو، اور بالوں میں کنگھا کر لو، اور نئے سرے سے حج کا تلبیہ پکارو ، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر جب محصب کی رات ( بارہویں ذی الحجہ کی رات ) ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کرا دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بھیجا، وہ مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھا کر تنعیم لے گئے، اور وہاں سے میں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا ( اور آ کر اس عمرے کے قضاء کی جو حیض کی وجہ سے چھوٹ گیا تھا ) اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرا دیا، ہم پر نہ «هدي» ( قربانی ) لازم ہوئی، نہ صدقہ دینا پڑا، اور نہ روزے رکھنے پڑے ۱؎۔